• KHI: Maghrib 6:48pm Isha 8:05pm
  • LHR: Maghrib 6:21pm Isha 7:44pm
  • ISB: Maghrib 6:28pm Isha 7:52pm
  • KHI: Maghrib 6:48pm Isha 8:05pm
  • LHR: Maghrib 6:21pm Isha 7:44pm
  • ISB: Maghrib 6:28pm Isha 7:52pm

امن کے قیدی

شائع November 16, 2012

افغان امن کونسل کے سربراہ، صلاح الدین ربانی کی آمد کے بعد سے اسلام آباد اور کابل کے درمیان مذاکرات اور روابط میں نمایاں پیش رفت  ہوئی ہے، خصوصاً اس وقت کے بعد سے جب پاکستان نے کئی ایک طالبان کو افغانستان کے حوالے کرنے کیلئے آزاد کیا ہے۔ یہ افغانستان کی جانب سے ایک ایسا دیرینہ مطالبہ تھا جس کے زریعے عسکریت پسندوں کو مذاکرات کی میز تک لاکر امن عمل کو تیز تر کیا جانا تھا۔

اسی رپورٹ کے تحت ، دونوں اطراف ( پاکستان اور افغانستان) نے طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروہوں پر زور دیا ہے کہ وہ نہ صرف مفاہمت کے عمل کا حصہ بنیں بلکہ القاعدہ اور سرحد پار دیگر دہشتگرد گروہوں سے بھی لاتعلقی کا اظہار کریں۔ اور امن عمل کیلئے یہ مختصر شرطیں ہی سامنے رکھی ہیں۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عسکریت پسندوں کو مذاکرات کی میز تک لانا، خطے میں امن کے لئے ایک مثبت عمل ہے؟ کیا بات چیت کا عمل محض اتنا ہی سادہ ہونا چاہئے کہ ان سے صرف یہ کہا جائے کہ وہ القاعدہ اور دیگر دہشتگرد گروپوں سے اپنا تعلق ختم کریں؟

پندرہ نومبر شائع ہونے والی ایک اور خبر کے مطابق، پاکستان افغان طالبان کے دوسرے اہم رہنما، ملا عبدالغنی برادر کی رہائی پر بھی غور کررہا ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا؛ ' تیرہ طالبان کو رہا کرنے کے بعد، پاکستان نے وعدہ کیا ہے کہ اگر ان اقدامات سے امن کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے تو وہ ملا برادر کو رہا کردے گا۔ افغان آفشیلز کو یقین ہے کہ وہ ( ملا برادر) اتنا اثرورسوخ رکھتے ہیں کہ وہ طالبان کو کابل حکومت سے بات چیت کی جانب مائل کرسکتے ہیں۔

کیا پاکستان کا یہ عمل بالخصوص اپنے عسکری حلقوں میں ایک عقلمندانہ فیصلہ تصور کیا جائے گا کیونکہ دو ہزار دس میں ملا برادر کی گرفتاری کو ایک ' بڑی کامیابی' قرار دیا گیا تھا۔  افغان حکومت کے دعووں کے تحت اگر ملا برادر ان کے لئے اتنے ہی اہم ہیں توپاکستان نے دو سال سے گزرنے کے باوجود بھی ان سے مفید معلومات حاصل کرنے یا ان کی گرفتاری کا کوئی فائدہ اُٹھانے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟

اپریل دو ہزارچودہ تک کے صدارتی انتخابات اور (افغانستان) سے نیٹو افواج کی واپسی سے قبل طالبان سے گفتگو اور مفاہمت کے عمل کو تیز کیا جارہا ہے لیکن اسلام آباد اور کابل اب تک ماضی کی تلخ و شیریں یادوں کےاثرات میں گرفتار ہیں۔

رپورٹ کے مطابق،' ستمبر دوہزارگیارہ میں برہان الدین ربانی کے قتل کے بعد ان کے بیٹے صلاح الدین ربانی کو امن کونسل کا سربراہ بنایا گیا تھا جو طالبان کے امن ایلچی تصور کئے جاتے تھے۔ اس واقعے کے بعد امن عمل اس وقت رک گیا جب اس قتل کا الزام پاکستان پر لگایا گیا اور کہا گیا کہ اس حملے کیلئے ایک پاکستانی کی پگڑی میں بم چھپا کر اسے بھیجا گیا تھا۔

پاکستان نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے ملک میں موجود افغان مہاجرین کو اس کا ذمے دار قرار دیا۔ اور اگست میں امن کونس کے سربراہ نے اس وقت بھی دورہ کیا تھا جب دونوں ملکوں کے درمیان سرحدوں پر بمباری کے بعد تناو شدت اختیار کرگیا تھا۔

کیا اب وقت نہیں کہ پاکستان اور افغانستان اس نازک موقع پرایک دوسرے پر انگلیاں اُٹھانے اور بچوں کی طرح لڑنے سے گُریز کریں؟

آپ کے خیال میں کیا یہ وقت نہیں کہ اب دونوں ممالک اپنے اختلافات ایک طرف رکھتے ہوئے کھلے ہاتھوں، کھلے ذہن اور کھلے دماغ کیساتھ خطے میں پاکستان اور افغانستان میں امن اور سالمیت کیلئے کام کریں؟

ڈان کو آپ کی رائے اور تبصرے کا انتظار رہے گا ۔

تبصرے (2) بند ہیں

انور امجد Nov 17, 2012 06:37pm
جنگیں کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوتیں اور اس کا کوئی دیر پا نتیجہ نہیں نکلتا۔ اقغانستان کے مسئلہ کا حل بھی صرف مفاہمت سے نکل سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیئے ضروری ہے کہ سب اسٹیک ہولڈرز پرانی باتوں کو بھلا کر مستقبل کا سوچیں اور مذاکرات میں اپنی امیدیں اور مطالبات منصفانہ رکھیں۔ طالبان بھی اس مسئلہ کی ایک بڑی اکائی ہیں اور ان کو مذاکرات میں شامل کرنا ضروری ہے۔ اب وقت اس لئے بھی مناسب ہے کہ جنگ میں شامل تمام لوگ تھک چکے ہیں اور ایک اسٹیل میٹ کی حالت ہے اور وہ اس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے کوئی باعزت راستہ نکالنے کی کوشش کریں گے۔
انور امجد Nov 18, 2012 09:35pm
اقغانستان مسئلہ کے حل میں ایک رکاوٹ طالبان کا امریکہ سے براہ راست مذاکرات کرنے کا مطالبہ ہے جو امریکہ کو منظور نہیں۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو طالبان کا موقف اصولی طور پر صحیح ہے۔ اگر گھڑی الٹی گھما کر دس سال پہلے کی حالت دیکھی جائے تو اس وقت افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی اور امریکہ نے جنگ شروع کی تھی اور اب تک اصلی فریق یہی دونوں ہیں۔ امریکہ کو اب اسے انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے اور امن کی خاطر اسے قبول کر لینا چاہئے۔ کاش پہلے بھی بجائے جنگ کے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جاتا تو اتنا خون نہ بہتا۔

کارٹون

کارٹون : 31 مارچ 2025
کارٹون : 30 مارچ 2025