امن کے قیدی
افغان امن کونسل کے سربراہ، صلاح الدین ربانی کی آمد کے بعد سے اسلام آباد اور کابل کے درمیان مذاکرات اور روابط میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے، خصوصاً اس وقت کے بعد سے جب پاکستان نے کئی ایک طالبان کو افغانستان کے حوالے کرنے کیلئے آزاد کیا ہے۔ یہ افغانستان کی جانب سے ایک ایسا دیرینہ مطالبہ تھا جس کے زریعے عسکریت پسندوں کو مذاکرات کی میز تک لاکر امن عمل کو تیز تر کیا جانا تھا۔
اسی رپورٹ کے تحت ، دونوں اطراف ( پاکستان اور افغانستان) نے طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروہوں پر زور دیا ہے کہ وہ نہ صرف مفاہمت کے عمل کا حصہ بنیں بلکہ القاعدہ اور سرحد پار دیگر دہشتگرد گروہوں سے بھی لاتعلقی کا اظہار کریں۔ اور امن عمل کیلئے یہ مختصر شرطیں ہی سامنے رکھی ہیں۔
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عسکریت پسندوں کو مذاکرات کی میز تک لانا، خطے میں امن کے لئے ایک مثبت عمل ہے؟ کیا بات چیت کا عمل محض اتنا ہی سادہ ہونا چاہئے کہ ان سے صرف یہ کہا جائے کہ وہ القاعدہ اور دیگر دہشتگرد گروپوں سے اپنا تعلق ختم کریں؟
پندرہ نومبر شائع ہونے والی ایک اور خبر کے مطابق، پاکستان افغان طالبان کے دوسرے اہم رہنما، ملا عبدالغنی برادر کی رہائی پر بھی غور کررہا ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا؛ ' تیرہ طالبان کو رہا کرنے کے بعد، پاکستان نے وعدہ کیا ہے کہ اگر ان اقدامات سے امن کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے تو وہ ملا برادر کو رہا کردے گا۔ افغان آفشیلز کو یقین ہے کہ وہ ( ملا برادر) اتنا اثرورسوخ رکھتے ہیں کہ وہ طالبان کو کابل حکومت سے بات چیت کی جانب مائل کرسکتے ہیں۔
کیا پاکستان کا یہ عمل بالخصوص اپنے عسکری حلقوں میں ایک عقلمندانہ فیصلہ تصور کیا جائے گا کیونکہ دو ہزار دس میں ملا برادر کی گرفتاری کو ایک ' بڑی کامیابی' قرار دیا گیا تھا۔ افغان حکومت کے دعووں کے تحت اگر ملا برادر ان کے لئے اتنے ہی اہم ہیں توپاکستان نے دو سال سے گزرنے کے باوجود بھی ان سے مفید معلومات حاصل کرنے یا ان کی گرفتاری کا کوئی فائدہ اُٹھانے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟
اپریل دو ہزارچودہ تک کے صدارتی انتخابات اور (افغانستان) سے نیٹو افواج کی واپسی سے قبل طالبان سے گفتگو اور مفاہمت کے عمل کو تیز کیا جارہا ہے لیکن اسلام آباد اور کابل اب تک ماضی کی تلخ و شیریں یادوں کےاثرات میں گرفتار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق،' ستمبر دوہزارگیارہ میں برہان الدین ربانی کے قتل کے بعد ان کے بیٹے صلاح الدین ربانی کو امن کونسل کا سربراہ بنایا گیا تھا جو طالبان کے امن ایلچی تصور کئے جاتے تھے۔ اس واقعے کے بعد امن عمل اس وقت رک گیا جب اس قتل کا الزام پاکستان پر لگایا گیا اور کہا گیا کہ اس حملے کیلئے ایک پاکستانی کی پگڑی میں بم چھپا کر اسے بھیجا گیا تھا۔
پاکستان نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے ملک میں موجود افغان مہاجرین کو اس کا ذمے دار قرار دیا۔ اور اگست میں امن کونس کے سربراہ نے اس وقت بھی دورہ کیا تھا جب دونوں ملکوں کے درمیان سرحدوں پر بمباری کے بعد تناو شدت اختیار کرگیا تھا۔
کیا اب وقت نہیں کہ پاکستان اور افغانستان اس نازک موقع پرایک دوسرے پر انگلیاں اُٹھانے اور بچوں کی طرح لڑنے سے گُریز کریں؟
آپ کے خیال میں کیا یہ وقت نہیں کہ اب دونوں ممالک اپنے اختلافات ایک طرف رکھتے ہوئے کھلے ہاتھوں، کھلے ذہن اور کھلے دماغ کیساتھ خطے میں پاکستان اور افغانستان میں امن اور سالمیت کیلئے کام کریں؟
ڈان کو آپ کی رائے اور تبصرے کا انتظار رہے گا ۔
تبصرے (2) بند ہیں