• KHI: Partly Cloudy 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 14.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.4°C
  • KHI: Partly Cloudy 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 14.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.4°C

مذھب اور سیاست

شائع November 15, 2012

سولہ اگست کو مانسہرہ بس حملے میں ہلاک ہونے والے ایک شیعہ کے عزیز کو دوسرا شخص تسلی دے رہا ہے۔ اے ایف پی تصویر

حالیہ برسوں میں جیسے  جیسے تشدد اور دہشتگردی میں اضافہ ہوا ہے مختلف اجتماعات اور اجلاسوں میں مذہبی انتہا پسندی کو زیر بحث لایا جارہا ہے کیونکہ ان واقعات سے ان بہت سےلوگوں کے دعوؤں پر منفی روشنی پڑتی ہے جو پاکستان کی اسلامی شناخت کی بات کرتے ہیں -

نتیجتا عوام پریشان ہیں کیونکہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ مذھب کے نام پر ہو رہا ہے- لیکن اس کے باوجود حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں.

کیا ایسا ہونا چاہئے تھا؟ پاکستان کو جسے برصغیر کےمسلمانوں کے وطن کے نام پر سیکولر لیڈروں کی رہنمائی میں سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں قائم کیا گیا تھا، قیام کے فورا بعد ہی ان عناصر نے ہتھیا لیا جنہوں نے اسلام کو معاشرے اور ریاست پر کنٹرول  پانے کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا- یہ وہی جماعتیں تھیں جنہوں نے بآواز بلند پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تھی.

کمزور اور بے اعتمادی کے شکار سیاسی رہنماؤں نے جو مسلسل مذہبی ریاست کی حمایت کرنے سے انکار کر رہے تھے، مدافعتی پوزیشن اختیار کر لی- وہ اس بات کی پیش بینی نہ کر پاۓ کہ ان کے کمزور رویہ کا نتیجہ کیا ہوگا- چنانچہ، مسلم لیگ پورے طور پر عوام کے سامنے اسلام کے کاز کی علم بردار بن گئی- ١٩٤٩ میں مجلس مقننہ نے قرارداد مقاصد منظور کی جو اس کمزوری کا اولین مظہربن گئی .اس کے نتیجے میں جلد ہی مسلم اکثریت اوردیگر مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان خلیج پیدا ہو گئی.

١٩٧٤ میں ذوالفقارعلی بھٹو نے جو ایک لبرل اور سیکولر رہنما سمجھے جاتے تھے، خود کو سیاسی طور پر کمزور پاکر مذہب کا کارڈ استعمال کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی . انہوں نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیدیا اور اس طرح ریاست کو یہ حق دیدیا گیا کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ کون مسلمان ہے اور کون غیر مسلم- اس کے باوجود بھی وہ نہ تو اپنا سیاسی کیرئر بچا سکے اور نہ ہی اپنی زندگی-

ہم نے ایسا تو نہیں سوچا تھا؟ جب ١٩٤٠ کی قراداد پاکستان منظور کی گئی تھی، جس میں مسلمانوں کے وطن کے طور پر" آزاد ریاستوں" کا تصور پیش کیا گیا تھا تو اس میں واضح طور پر یہ کہا گیا تھا :

" ان ریاستوں اور ان ریاستوں کی اقلیتوں کو (جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں) آئین میں خاص طور پر معقول، موثر اور یقینی تحفظات فراہم کے جائینگے تاکہ ان کے مذہبی، ثقافتی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کا تحفظ، ان کی مشاورت کے ساتھ کیا جا سکے"

گیارہ اگست ١٩٤٧ کو قانون ساز اسمبلی میں اپنی افتتاحی تقریر میں قاعد اعظم نے کہا  تھا؛

"آپ آزاد ہیں، آپ آزادی کے ساتھ اس ریاست پاکستان میں، اپنے مندروں، اپنی مسجدوں یا دیگر عبادت گاہوں میں جا سکتے ہیں- آپ کا تعلق خواہ کسی مذھب، فرقے یا عقیدے سے ہو اس کا ریاست سے قطعی کوئی تعلق نہیں۔ ہمارا بنیادی اصول یہ ہوگا کہ ہم سب ایک ریاست کے شہری ہیں، مساوی شہری".

تو پھر کیا غلطی ہوئی؟ غیر مسلم ایک ایسی ریاست میں کیوں عدم تحفظ کا شکار ہیں جس کے بانیوں نے انھیں مکمل تحفظ کا یقیں دلایا تھا؟ ملازمتوں اور تعلیم کے میدان میں ان سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے ان پر کفر کے خطرناک الزامات لگائے جاتے ہیں، ان کی نوجوان بیٹیوں کو اغوا کر لیا جاتا ہے اور زبردستی انکا مذھب تبدیل کر دیا جاتا ہے، انھیں ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہو یہ رہا ہے کہ جو بھاگ سکتے ہیں، وہ اس ملک کو چھوڑ کر جا رہے ہیں-

گوکہ ایک وسیع اکثریت ان باتوں کو پسند نہیں کرتی لیکن ان میں اتنی طاقت اور حوصلہ نہیں ہے کہ وہ ببانگ دہل اس کا اظہار کر سکیں کیونکہ ریاست اپنے شہریوں کو، خواہ انکا تعلق کسی بھی عقیدے سے ہو، تحفظ فراہم نہیں کرتی- چنانچہ غیر مسلموں کی بڑی تعداد خوف و دہشت کا شکار ہے-

قومی کمیشن براۓ امن و انصاف کی رپورٹ میں ہماری درسی کتابوں کے متن کا حوالہ دیا گیا ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ کس طرح ارباب اختیار دیگر مذاہب کے خلاف سرگرمی کے ساتھ نفرت کو فروغ دیتے رہے ہیں- مذھب کو مسخ کرنے کی ان کوششوں نے اقلیتوں کے لئے سماجی اور معاشی فضا کو تہ و بالا کر دیا ہے اور ملّا عناصر کی مہم  کو تقویت پہنچائی ہے کہ وہ پھر سے معاشرے پر اپنا کنٹرول قائم رکھ  سکیں -

اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس مسئلے کی طرف متوجہ ہوں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جاۓ اور غیر معقول انتہا پسند ریاستی پالیسیوں پر مکمل غلبہ حاصل کر لیں- پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کی جانب سے منعقد ہونے والے ایک مشاورتی اجلاس میں غیر مسلم آبادی نے اس بات پر اعتراض کیا ہے کہ انھیں "اقلیتیں" کہا جاتا ہے- ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ ایک امتیازی اور تنہا کردینے والے رویہ کی نشان دہی کرتا ہے، جو انہیں قومی دھارے سے جدا کرتا ہے اور اس مساویانہ حق کی نفی کرتا ہے جو انھیں آئیں کی شق ٢٥ کے تحت حاصل ہے-

گرچہ بنیادی قوانین کے تحت غیر مسلموں کے حقوق کو بہت سے تحفظات فراہم کے گئے ہیں لیکن پاکستان کے تعزیری (پاکستان پینل کوڈ) میں ایسی دفعات بھی موجود ہیں جو ان تحفظات کی نفی کرتی ہیں.

موجودہ صورت حال میں مذہبی جماعتوں کو وسیع مواقع حاصل ہیں جن کے ذریعہ وہ اقلیتوں کو تنہا کردینے کے اپنے ایجنڈوں کو آگے بڑھا رہے ہیں-  الیکٹرانک میڈیا کا ایک حصہ بھی اس سارے معاملے میں قابل نفرین رول ادا کر رہا ہے- وہ اقلیتوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکا رہے ہیں اور اس مقصد کے لئے اسلام کے نام پر نفرت کے بیوپاریوں کی غیر ضروری تشہیر کر رہے ہیں- کیا کسی نے ان کے اصل محرکات کو جاننے کی کوشش کی ہے؟

اصغر علی انجینئر ہندوستان کے سماجی کارکن ہیں جنہوں نے ہندوستان میں ہونے والے درجنوں فسادات کے بارے میں تحقیق و تفتیش کی ہے- ایک مرتبہ انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے یہی دیکھا ہے کہ مذھب کے نام پر ہونے والے تشدد کے ہر واقعہ کے پیچھے ہمیشہ کوئی نہ کوئی معاشی محرک ہوتا ہے- کبھی معاملہ زمین کے مالکانہ حقوق کا ہوتا ہے تو کبھی کاروباری رقابت کا یا ملازمت اس کا سبب بنتی ہے- ہمارے معاملے میں سیاسی طاقت کی طمع بھی اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے.

اس تناظر میں سابقہ سنیٹر اقبال حیدر کا یہ قدم کہ سیکولرزم کو فروغ دینے کے لئے ایک جمہوری اور غیر جماعتی پلیٹ فارم تشکیل دیا جاۓ، اہمیت کا حامل ہے- فورم کی افتتاحی تقریب میں یہ اعلان کیا گیا ہے عوام میں سیکولرزم کے تعلق سے بیداری پیدا کرنے اور قانون سازوں، ریاست کے ارباب اختیار، میڈیا اور ٹریڈ یونینوں کے تعاون سے قوانین میں موجود تحریفات کو دور کرنے کی کوشش کی جائیگی یہ فورم سب کیلئے سماجی انصاف کی بنیاد پر پاکستانی قومیت کی ایک نئی تاریخ رقم کریگا.

یہ کام اتنا آسان بھی نھیں ہے لیکن سابقہ سنیٹر کو مخلص حامیوں کا تعاون حاصل ہے- فی الحال اس تحریک کی رفتار سست ہے اور جب تک اس فورم کے دائرے کو بڑھاکر اسے عوامی تحریک کی شکل نہ دی جاۓ اس کے اثرات دکھائی نہ دینگے- شعور اور بیداری کی عدم موجودگی نے جہل پسندی اور ترقی کی دشمن قوتوں کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کر دیا ہے.


http://www.zubeidamustafa.com/urdu/ ترجمہ: سیدہ صالحہ

زبیدہ مصطفی

www.zubeidamustafa.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (3) بند ہیں

محمد ندیم Nov 15, 2012 06:25am
متزکرہ بالا موضوع سیر حاصل بحث کا طالب ہے اس پر کتابیں تحریر کی جا سکتی ہیں‌ کیونکہ بات نظام کی ہے کسی شخص کی انفرادی زندگی کی نہیں-مختصرا یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اسلام کو دین سمجھا جا ئے - اسلام کی مزہبی توجیہ مزید مسائل کی جانب لے جائے گی- حالات مزید بدحالی کی جانب جا سکتے ہیں- اسلام کو دور جدید میں معاشرے کے مطابق ڈھالنے کیلئے اجتہاد کی ضرورت ہے نہ کہ الحاد کی- جدا دیں سے ہو سیاست تو رہ جاتی ہے چنگیزی(اقبال) (اگر مصنف کے پاس مزید دلائل و شواہدیا کوئی اور تصنیف ہو تو برائے مہربانی شیئر کریں‌)
انور امجد Nov 17, 2012 06:26am
اس مضمون میں موجودہ حالات کا تجزیہ صحیح ہے لیکن اس کا حل جو تجویز کیا گیا ہے یعنی کہ ملک کو سیکولر بنا دیا جائے درست نہیں ہے۔ انڈیا میں مسلمان گائے کی قربانی نہیں کر سکتے۔ فرانس میں مسلمان عورتیں ایک بے ضرر سی چیز حجاب نہیں پہن سکتی ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں مسجد کے مینار نہیں بنائے جاسکتے ہیں۔ یہ سب سیکولر ملک ہیں لیکن ان میں مذہب سے متعلق یہ قانون کیوں ہیں؟ یہ صحیح ہیں یا کہ نہیں یہ الگ بحث ہے۔ لیکن اس کی وجہ سادی سی یہ ہے کہ وہاں کی اکثریت یہ قانون چاہتی ہے۔ جمہوری ملکوں میں جو اکژیت چاہتی ہے وہ ہوتا ہے۔ اقلیتوں کو تحفظ تمام معاشرے دیتے ہیں لیکن ان کی مرضی اکثریت پر مسلط نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان اگر سیکولر ملک ڈیکلئر بھی کر دیا جائے تب بھی اس میں 97 فیصد لوگ مسلمان ہوں گے اور قانون ان کی خواہش کے مطابق بنیں گے۔ میڈیا کو الزام نہ دیں وہ وہی پیش کرتے ہیں جو عوام میں مقبول ہو۔
خواجہ شجاع عباس Nov 17, 2012 08:52am
نظریہ جتنا اچھا ہو اس کا غلط استعمال اتنا ہی شدید اور برا ہوتا ہے.موجودہ خونریزی اور بد امنی کے اصل ذمہ دارملک کی ہیت حاکمہ ہے جس کا مقصد اشرافیہ کےقانونی اورغہرقانونی لوٹ مار کو تحفظ دینا ہے.جرنیل اس ہیت حاکمہ کے اصل کھلاڈی اور شہری افسر شاہی اور بددیانت سیاسی بازیگر ان کے دست و بازو ہیں.ان کا کسی اسلامی یا سیکولر نظریے سے کوئی تعلق ہے نہ واسطہ.کیا دو عالمی جنگوں کی زمہ داری سیکولرازم پر ڈالی جاسکتی ہے!ایسے ممالک جہاں سیکولرازم کو بطور ریاستی نظریہ اختیار کیا گیا ہےوہاں پاکستان سے بدتر حالات نہیں ہیں.نائجیریا،بھارت،اندونیشیا اور شری لنکا کے خونریز فسادات کا سیکولرازم کیوں مداوا نہیں کر پاتا.

کارٹون

کارٹون : 25 دسمبر 2025
کارٹون : 24 دسمبر 2025