• KHI: Maghrib 6:55pm Isha 8:14pm
  • LHR: Maghrib 6:32pm Isha 7:57pm
  • ISB: Maghrib 6:40pm Isha 8:07pm
  • KHI: Maghrib 6:55pm Isha 8:14pm
  • LHR: Maghrib 6:32pm Isha 7:57pm
  • ISB: Maghrib 6:40pm Isha 8:07pm

کاربن ڈائی آکسائیڈ سے خلائی حادثات میں اضافہ

شائع November 12, 2012

تصوہر میں جہاں سرخ نقطے نظر آرہے ہیں وہ مدار میں گھومتے ہوئے خلائی کاٹھ کباڑ کو ظاہر کرتے ہیں۔ فائل تصویر اے پی

لندن: زمین سے بلندی پر بالائی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے جمع ہونے سے کھنچاوکا اثر یا ڈریگ ایفیکٹ کم ہوجائے گا اور اس سے مدار میں موجود سیٹلائٹس اور وہاں گردش کرتا ہوا خلائی کوڑا کرکٹ نہ صرف زمین کی جانب آئے گا بلکہ ان کے درمیان تصادم بھی بڑھ جائے گا۔

ممتاز بین الاقوامی سائنسی جریدے، نیچر جیوسائنس میں شائع شدہ ایک تحقیق کے مطابق زمین پر رکازی ایندھن کے جلنے سے نہ صرف زمین کی حدت اور درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ آٹھ برس میں یہ عمل بہت تیز ہوا ہے۔

مطالعے کے مطابق، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ زمین سے تقریباً نوے کلومیٹر بلندی کا علاقہ ذیادہ سرد اور کم کثیف ہوجائے گا،اور وہاں موجود سیٹلائٹس پر فضائی رگڑ یا  کھنچاو کم ہوگا اور اس کے اثرات اس خلائی کچرے پر بھی پڑیں گے جو ناکارہ سیٹلائٹس اور راکٹوں کی تباہی سے وجود میں آیا ہے اور پہلے سے ہی غیر مستحکم ہے۔

بالائی فضا میں کم رگڑ کا مطلب ہے کہ سیٹلائٹ اور خلائی ملبہ وہاں زیادہ طویل عرصے تک موجود رہے گا اور ان کے باہمی ٹکرانے کے خطرات میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا۔

محتاط اندازے کے مطابق، قبل از صنعتی عہد سے اب تک اوسط عالمی درجہ حرارت میں صفر اعشاریہ آٹھ ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوچکا ہے۔ جبکہ صرف دو درجے سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں اضافے کو زمین پر خوفناک قدرتی آفات مثلاً سینڈی جیسے طوفان، گرمی کی شدت، خشک سالی اور سمندروں کی بلند ہوتی ہوئی سطح سے تعبیر کیا جارہا ہے۔

واشنگٹن میں نیول ریسرچ لیبارٹری، ورجینیا کی اولڈ ڈومینین یونیورسٹی، یونیورسٹی آف واٹرلو اور برطانیہ  کی یورک یونیورسٹی نے مشترکہ طور پر زمین سے ایک سو ایک کلومیٹر بلند پر کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے جمع ہونے کا دوہزار چار سے دوہزار بارہ تک کا ریکارڈ جمع کیا اور بتایا کہ اس عرصے میں اس گیس میں بہت اضافہ ہوا ہے۔

اس مطالعے سے پہلے تک فضا میں صرف پینتیس کلومیٹر بلندی تک ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس میں اضافے کی جانچ کی گئی تھی کیونکہ جدید ترین طیارے اور تحقیقاتی غبارے اس سے اوپر بمشکل ہی جا پاتے ہیں۔ جبکہ راکٹوں اور زمینی مشاہدے سے بھی بہت ذیادہ معلومات حاصل نہیں ہوتی ۔

فضا میں خلائی کاٹھ کباڑ کی مقدار نہ صرف نئے سیٹلائیٹس کے لئے خطرناک ہے بلکہ نئے خلائی مشن اور خلائی اسٹیشنوں کے لئے بھی مشکلات کی وجہ بن سکتی ہے۔ ناسا کے مطابق اس وقت خلا میں زمین کے گرد لگ بھگ اکیس ہزار ایسے ٹکڑے گھوم رہے ہیں جو چار انچ سے بڑے ہیں لیکن ان میں تصادم کا خطرہ بہت ہی کم ہے یعنی ایک سال میں ایک دفعہ ہی ٹکراو ہوتا ہے۔

دوہزار ایک میں ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مدار میں خلائی ملبے کی مقدار بڑھ رہی ہے اور ان کو نکال باہر کرنے کیلئے امریکہ مختلف ٹیکنالوجیز پر کام کررہا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 16 اپریل 2025
کارٹون : 15 اپریل 2025