جب سنیما کے ساتھ یادیں بھی راکھ ہوگئیں
کراچی کے باسی اس شہر کے سنیماوں پر موجود شوخ رنگوں سے بنے بڑے بڑے پوسٹروں پر غصیلے ہیروز اور ہیروئنوں کے چہرے کیسے فراموش کرسکتے ہیں۔ پھر بیمبینوسنیما کے باہر گلابی نیون روشنی سے بھرے حرف بی کے درمیان تھرکتی ایک عورت کا خاکہ ہمیں قدرے برداشت دور کی یاد دلاتا ہے۔
نشاط، لیرک، اسکالا، کیپیٹل، پرنس، گوڈین، اوڈین ، ریکس، پیراڈائز، فردوس، ریو، ناز اور دیگر فراموش کردہ سنیما جو غریب اور امیروں کو تفریح فراہم کرتے تھے وقت کے ساتھ ساتھ شاپنگ پلازہ اور کمرشل عمارتوں میں تبدیل ہوگئے۔ جو تاریخی سنیما بچ رہ گئے تھے وہ گزشتہ ماہ کراچی میں ہونے والے پُر تشدد مظاہرے میں جلادئے گئے۔
تاہم آج شہر میں ملٹی پلیکسز سنیما کی بھرمار ہوچکی ہے لیکن روایتی سنیما کا تجربہ بالکل مختلف تھا۔ یہ تجربہ ہر روز صبح اور دوپہر کو ہوا کرتا تھا جب ہم اپنے گھر کے کمرے میں ریڈیو پر نیفڈیک پروگرام سنا کرتے تھے۔
یہ سلسلہ انیس سو سڑسٹھ میں شروع ہوا ، (فلم) کے ریڈیو پروگرامز، پردے کی زینت بننے والی تازہ ترین بلاک بسٹر فلم کا مختصر اور بھرپور تعارف بیان کرتے تھے جن میں فلموں کے ڈائلاگ اور آوازیں ایک زبردست اسکرپٹ میں سمودی جاتی تھیں اور انہیں بیان کرنے والا صداکار اس مہارت اور جوش کے ساتھ بیان کرتا تھا کہ فلاپ فلم پر بھی کھڑکی توڑ ہفتہ فلم کا گمان ہوتا تھا۔
حسن شہید مرزا، سیعد شیراز اور زینت یاسمین کی ڈرامائی آوازیں آج بھی میرے ذہن میں گونجتی ہیں۔
مثلاً ۔۔۔ یہ جاننے کیلئے دیکھئے۔ حسن شہید مرزااپنے مخصوص انداز میں ہمیں مجبور کرتے تھے کہ ہم جان فلپ لا کی ڈینجر ڈائبولک مین دیکھیں۔ اس کے بعد ایک کورس اسطرح گنگناتا تھا ' ڈینجر ڈائبولک گولڈ مین، نشاط میں ، نشاط سنیما میں۔۔۔
' فلم ریلیز ہوتے ہی، پوری فلم کی آڈیو ریکارڈ کی جاتی تھی اور پھر ایک ریڈیو اسکرین پلے لکھا جاتا اور بعد میں فلم کے گانے اور مکالمے اس میں شامل کئے جاتے تھے، ' سعید شیراز نے بتایا جو متعدد ریڈیو پروگرامز کی ریکارڈنگ کرچکے تھے۔
' آخر میں فنکاروں کے نام اورکریڈٹس شامل کئے جاتے تھے۔ ریڈیو پروگرامز دوپہر میں چلتے تھے اور اس کے نتیجے میں تمام شوز بھرے ہوئے ہوتے تھے۔ '
یہ گویا کل ہی کی بات لگتی ہے جب میں نے ناظم آباد کے ہجوم سے نکل کر برگلر نام فلم دیکھی تھی یا نشاط سنیما میں بین ہر کا لطف آٹھایا تھا۔ جُوبلی سنیما میں جادو فلم اپنے ملازم کی فیملی کی ساتھ دیکھی تھی کیونکہ میرے اہلِ خانہ شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ممتاز کس طرح اس سے بیزار شاہد کے سامنے کوبرا سانپ کی طرح بل کھارہی تھی۔ پھر یہ گوڈین سنیما میں لگنے والی فلم شیرخان ہی تھی جسے دیکھتے ہوئے توانائی سے بھری ہوئی انجمن کے سارے گانے میں نے بھی گنگنائے تھے۔
کیپری میں ریان ڈاٹر نامی فلم دیکھنا ایک خطرے بھرا کام تھا کیونکہ اس پر ' صرف بالغان کیلئے' کا بورڈ چسپاں تھا۔ ہم رابرٹ مچم اور سارہ مائلز کی فلم کو بطور فیملی تفریح کے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ تاہم اس کے لئے ایک منصوبہ بنایا گیا جو میں نے اپنی بہترین دوست سانڈرا اور اس کی بڑی بہن ایوا کے ساتھ ملکر تیار کیا ۔
ایک دوپہر کو ہم گارڈن روڈ پر گورنمنٹ آفیسر کالونی سے ہوتے ہوئے کرسچن کالونی سے گزرتے ہوئے ڈولی کھاتہ سے گزرے اور کوسٹ گارڈ ہیڈ کوارٹر کی جانب مڑے اور ان سب کے لئے لائبریری کے دورے کا بہانہ کیا گیا تھا۔
پھر سنیما کی عمارت میں چند قدم چڑھتے ہی فلم کے دوران لی گئی رنگین چمکیلی تصاویر آپ کو اپنی جانب متوجہ کرتی تھی جو فلم دیکھنے سے قبل ایک بہت پُرجوش لمحہ ہوا کرتا تھا۔ آپ سنیما میں کھانے پینے کے کاونٹرز کو پیچھے چھوڑتے ہوئے آگے بڑھا کرتے تھے۔ ستر کی دہائی میں سیڑھیوں پر قالین بچھے ہوتے تھے اور ایک شخص آپ کو خوش آمدید کہہ کر ٹارچ کی روشنی سے آپ کو ایک بہت تاریک کمرے میں بھیجتا تھا جس کی سیڑھیوں پر رہنمائی کے لئے چھوٹی چھوٹی سرخ لائٹس لگی ہوتی تھیں اور پس منظر میں کیبرے اسٹائل کی موسیقی چل رہی ہوتی تھی ۔
فلمی تھیئٹر میں تماشائیوں کو بٹھانے کا اپنا اپنا انتظام ہوتا تھا۔ سب سے شاندار تھا گرانڈ سرکل، پھر ڈریس سرکل، اور چھ آنے والے گوشے جہاں فلم کے وہ جنونی شائقین بیٹھتے تھے جو مہنگے ٹکٹ افورڈ نہیں کرسکتےتھے۔ پوری فلم میں ان کی سیٹیاں، مکالمے اور جملے گونجتے رہتے تھے۔ وہ ریڈرز آف دی لاسٹ آرک میں ہیریسن فورڈ یا ڈسٹن ہافمین کی ہر موقع پر آواز لگاکر اس کی رہمنائی کرتے رہتے تھے۔
میں ہمیشہ سنیما جلدی پہنچتی تاکہ ' نو اسموکنگ' کی سلائیڈ دیکھ سکوں اور ٹائیفون ٹوٹل کنٹرول کا اشتہار بھی ۔ کبھی کبھار سنیما میں پاکستان کی زرعی ترقی پر ایک
ڈاکیومنٹری بھی چلتی تھی لیکن معلوم نہیں کہ وہ کیوں شامل کی جاتی تھی۔ پھر 'کمنگ سون' کی سلائیڈ کے بعد آنے والی فلموں کے ٹریلر دکھائے جاتے تھے اور پھر قومی ترانہ دکھایا جاتا تھا جس میں ہم سب با ادب کھڑے ہوجایا کرتے تھے۔
انٹرویل یعنی وقفے میں روشنیاں قدرے دھیمی ہوجاتی تھیں اور ایک شخص اپنے کاندھے پر بوتلوں کا کریٹ اُٹھائے بوتل کھولنے کی چابی مخصوص انداز میں بوتلوں سے ٹکراتا۔ جسطرح وہ اندھیرے میں تماشائیوں کی قطار در قطار میں سے اپنا راستہ تلاش کرتا تھا میں اسے سراہتی تھی۔ وہ ہمیں کھانے پینے کی اشیا اور ٹھنڈی سافٹ ڈرنکس دیتا اور خالی بوتلیں واپس لے جاتا۔ کبھی فلم کے عین درمیان بجلی چلی جاتی یا اندھیرے میں کوئی چوہا یا لال بیگ بھی نکل آتا تھا۔ اس کے باوجود ہم اگلے یا دوسرے ماہ دوبارہ سنیما میں موجود ہوتے۔
بالی وڈ فلموں کی آمد اور شاپنگ تھیئٹروں کے فروغ کے بعد بھی روایتی سنیما مثلاً نشاط میں بہت سی بنیادی تبدیلیاں کی ہیں۔ جن میں بڑی نشستیں، صاف ستھرے فرش، بہتر ایئر کنڈیشننگ، مناسب واش رومز اور ڈولبی ساونڈ سسٹمز شامل ہیں۔ نیویارک، کمینے اور مائی نیم از خان جیس فلمیں نشاط کی بہت وسیع گیلری سے ذیادہ کہیں اور لطف نہیں دے سکتیں جن کے ساتھ بوہری بازار کے سموسے، پکوڑے بہت سی چٹنیوں کے چٹخارے لئے جاتے اور ایک فٹ چوڑی بالکنی میز کی جگہ استعمال ہوتی تھی۔
پھر یوں ہوا کہ ایک خوفناک ضرب میں اس سنیما کا پردہ گر گیا۔ گئےدنوں کی خوشگوار یادیں، دوستوں کی سنگتیں اور تاریخی یادگار فلمیں سب ہی اس سنیما کے جلنے سے راکھ کے ڈھیر میں بدل گئیں۔