دھوپ کھائیے، ٹی بی بھگائیے
لندن: سائنسدانوں نے وہ عمل معلوم کرلیا ہے جس کے تحت تپ دق یا مختصراً ٹی بی میں مبتلا مریض سورج کی کرنوں کی مدد سے تیاروٹامن ڈی کے زریعے زیادہ جلدی اس مرض سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔
تحقیق سے اس قدیم طریقے کو بھی سمجھا جاسکے گا جس کے تحت ٹی بی کے مریضوں کو دھوپ میں بٹھایا جاتا تھا اور اس عمل کو شمسی علاج یا ہیلیوتھراپی بھی کہا جاتا ہے۔
ٹی بی اور دیگر امراض کے لئے ایٹی بایوٹکس ادویہ انیس سو تیس کے عشرے میں منظرِ عام پر آئیں تاہم اٹھارہویں صدی میں ٹی بی کے مریضوں کو خاص طور پر دھوپ میں بٹھایا جاتا تھا۔
ایک مطالعے میں برطانوی ماہرین نے پھیپھڑوں کے انفیکشن میں مبتلا مریضوں کو اینٹی بایوٹکس کے ساتھ ساتھ ان کا سامنا دھوپ سے کرایا تو ان میں بحالی کا عمل ذیادہ تیز ہوگیا۔ کیونکہ دھوپ سینکنے کے عمل سے جسم میں وٹامن ڈی کی بڑی مقدار کی تیاری میں مدد ملتی ہے۔ اس بات کا اظہار لندن میں واقع کوئن میری یونیورسٹی میں امنیاتی نظام اور تنفسی امراض کے لیکچرار اڈریان مارٹنیو نے کیا ہے جو اس مطالعے کے سربراہ بھی ہیں۔
مطالعے کے نتائج سے ظاہر ہوا ہے کہ وٹامن کی بلند مقدار کسی انفیکشن سے ہونے والی جسم کی اندرونی جلن اور سوزش کو کم کرتی ہے اور پھیپھڑوں کے متاثر ہونے کے عمل کا ازالہ کرتی ہیں۔
کیونکہ سوزش سے پھیپھڑوں کی بافتوں کو نقصان پہنچتا ہے اور یہاں تک کہ پھیپھڑوں میں باریک سوراخ ہوجاتے ہیں۔
اگر ہم ان سوراخوں کو فوری طور پر رفو کردیں تو مریض نہ صرف کم عرصے کے لئے انفیکشن کا شکار ہوگا بلکہ اس کے پھیپھڑوں کو بھی کم سے کم نقصان ہوگا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دھوپ میں بیٹھنے سے نہ صرف سوزش اور جلن کے اثرات کم ہوتے ہیں بلکہ اگرمریض اینٹی بایوٹکس لے رہا ہے تو اس دوا کے اثرات پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ اسی طرح موثر رہتی ہیں۔
تمام تر طبی ترقی کے باوجود بھی ٹی بی دنیا کے غریب ممالک کے لئے ایک مسئلہ ہے صرف دوہزار آٹھ میں دنیا بھر میں چودہ ہزار افراد اس مرض کا شکار ہوکر لقمہ اجل بنے۔