ایک ہندو لڑکی کی بپتا
میں خوف و ڈر میں پلی بڑھی ۔ میرے آس پاس ہر چہرے سے صرف خوف ہی جھلکتا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ میرے جنم پر کندھ کوٹ میں رہنے والے میرے ماں باپ کے چہروں پہ خوشی نہیں بلکہ خوف ہی چھایا ہوگا کیونکہ میں تو ایک لڑکی تھی جو ہندو گھرانے میں پیدا ہوئی تھی۔
آخر کیوں میں اپنے ماں باپ کی زندگی میں اتنا خوف لے کر آئی تھی؟ میں بچپن میں سوچتی تھی کہ مجھ میں ایسا کیا ہے جو میرے ماں باپ کو ہمیشہ خوف میں مبتلا رکھتا ہے۔ لیکن مجھے کبھی سمجھ نہ آئی ۔ کتنی نادان تھی میں۔
جلد ہی اسکول جانے کا وقت آ گیا۔ اسکول کا زمانہ تو کافی آرام دہ اور پُرسکون تھا لیکن کبھی کبھی میں خود کو دوسروں سے الگ تھلگ محسوس کرتی تھی۔ میں ایک ایسی لڑکی تھی جسےدوسروں سے گھلنے ملنے میں دشواری پیش آتی تھی۔
اُن کی طنزیہ باتیں اور امتیازی سلوک نے مجھے یہ یقین دلایا تھا کہ میں 'اُن' میں سے نہیں ہوں۔ میرے ساتھ کھانا کھانے اور جس گلاس سے میں پانی پیتی، اُس کو مُنہ لگانے سے انکار کیا جاتا، ایسے رویے مجھے آج بھی یاد ہیں۔
گھر پہ بھی حالات کچھ زیادہ مختلف نہ تھے۔ میری ماں مجھ سے میرے اسکول کے بارے میں پوچتھی تو تھیں لیکن وہ میری باتوں میں ایسے جواب ڈھونڈتی تھیں، جو انہیں ان کے انجانے خوف سے نجات دلا سکے۔
اور میں چونکہ انہیں مایوس نہیں کرنا چاہتی تھی، لہذا میں بہت جلدی سمجھ گئی کہ وہ کبھی بھی میری معتمد نہیں بن سکتیں۔
اسی وجہ سے میرا بچپن مشکلات کا سامنا کرتے کرتے گزرا۔ پھر ایک دن میری ماں اور اُن جیسی کئی ہندو ماوں کا اپنی بیٹیوں کے لیے خوف میرے سامنے ظاہر ہوگیا۔
ایک دن میں کندھ کوٹ کی ایک بڑی مارکیٹ میں گئی تو وہاں مجھے اغواء کرلیا گیا۔ مجھے اغواء کرنے والا شخص کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے مندروں اور سامان کی حفاظت کرنے والا چوکیدار تھا۔
چوں کہ میں اُسے پہلے سے ہی جانتی تھی لہذا میں بغیر کچھ کہے اُس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی ۔ لیکن وہ مجھے میرے گھر لے جانے کے بجائے ایک انجان راستے پر لے گیا۔
آگے کیا ہونے والا تھا میں اس سے انجان تھی، میں نے خوف اور بے یقینی کی کیفیت میں زور زور سے چلانا شروع کردیا۔ وہ شخص مجھ پہ زیادہ زور سے چلانے اور دھمکانے لگا۔
میں اُس وقت اتنی حیران تھی کہ صورت حال کی سنگینی کو سمجھ ہی نہیں پائی۔ جب تک اُس شخص نے مجھے گاڑی سے نکلنے کو نہ کہا میں بس سہم کرگاڑی میں بیٹھی رہی ۔ وہ مجھے ایک سنسان گھر میں لے آیا تھا۔
ہم اُس گھر میں داخل ہوئے تو مجھے ایک بڑا کمرہ نظر آیا جس میں نہ تو کوئی فرنیچر تھا اور نہ تو کوئی دوسرا گھریلو سامان۔ بس زمین پر ایک قالین بچھا ہوا تھا۔ مجھےاُس شخص نے وہیں زمین پر بیٹھا دیا۔
میں نے پچھلے چند ہفتوں میں یہ خبریں سنی تھیں کہ کچھ ہندو لڑکیوں کو اغواء کرکے اُن سے زبردستی اسلام قبول کروا گیا ہے۔ یہ سوچتے ہوئے میں کانپ اٹھی اور میں نےبھی اپنی ساری زندگی اُن بیچاری ہندو لڑکیوں کی طرح دیھکنا شروع کردیا جن کو اغوا کرکے زبردستی اسلام قبول کرا دیا جاتا تھا۔
مجھے اپنی ماں کا خوف، باپ کا انتباہ، تنہائی جو میں نے محسوس کی، وہ خواہش کہ میں بھی سہیلوں کے ایک گروپ کا حصہ بنوں، ایک انتہائی مخلص دوست کی تلاش، میری نظروں میں گھومنے لگی۔
میرے سارے بدترین خدشات اس وقت سچ ثابت ہوگئے جب میں نے ایک پگڑی پہنے شخص کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھا۔ وہ مجھے ایک ایسا مذہب سیکھانے آیا تھا جس کے بارے میں، میں بچپن سے سُنتی تو آئی تھی لیکن مجھے اسے اپنانے کا کوئی شوق نہیں تھا۔
وہ شخص مجھے گھنٹوں تک اسلام کی دعوت دینے کی کوشش کرتا رہا لیکن مجھے کسی بھی طریقے سے راضی نہ کرسکا۔ پھر اُسے محسوس ہوا کہ اُس کا طریقہ کارگر ثابت نہیں ہو رہا لہذا وہ یہ کہتے ہوئے کمرے سے چلا گیا کہ میں اس کی باتوں کی روشنی میں 'سچے مذہب' پر غور کروں۔
اُس کے چلے جانے کے بعد میرے اندر کسی تبدیلی کی کو ئی خواہش تو نہیں جاگی ہاں البتہ میں یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہو گئی کہ میرے ماں باپ نے موقع ملنے کے باوجود پاکستان سے نقل مکانی کیوں نہ کی؟ اُنہوں نے خوف میں جینا کیوں قبول کیا ؟ اور میں نے کیسے سوچ لیا کہ میں اُن ساری لڑکیوں سے مختلف ہوں جن کو اغواء کرکے زبر دستی مذہب تبدیل کروایا گیا ہو؟
ہر گزرتے دن کے ساتھ میری پریشانی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ یہ تبلیغ کی رسم نہ جانے کتنے دنوں تک چلتی رہی لیکن جب مجھ پر کوئی اثرنہ ہوا تو مجھے اغواء کرنے والا دھمکیوں پر اُتر آیا۔
اب تو یہ معمول بن گیا تھا، روز مجھے یا تو دھمکیاں ملتی، یا پھر مجھے جنت کی حسین زندگی اورخُدا کا خوف دلا کرمجھے اسلام قبول کرنے کے لئے قائل کرنے کی کوشش کی جاتی۔
لیکن اُن کی باتوں نے مجھے تو صرف یہی سوچنے پر مجبور کیا کہ کیا ہم سب ایک ہی خدا کی عبادت نہیں کرتے؟
وہ خدا جو ہر چیز میں ظاہر ہے، چاہے وہ فطرت ہو، رنگ ہوں یا پھر خوشیاں اور پیار کیوں نہ ہو؟
آخر خدا مجھے ہندو ہونے پر سزا کیوں دے گا؟
بالاخرمجھے قائل کرنے کی کوششوں اور میرے خاندان کو نقصان پہنچانے کی دھمکیوں نے کام کر دکھایا اور میں نے اپنے گھٹنے ٹیک دیے۔
میری رضامندی کے بعد ایک چھوٹی سی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں مجھ سے اسلام قبول کروایا گیا۔ اُس کے بعد میری ایک ایسے آدمی سے شادی کرادی گئی جو ہمیشہ ایک 'مسیحا' سمجھا جائے گا، جس نے مجھے گناہ اور کفر کی انجان راہ پہ چلنے سے بچا لیا۔
جب تقریب ختم ہوئی تومجھے خوشیوں بھری، خوشحال زندگی کی دعائیں دینے کے بجائے فوراً ایک مقامی عدالت میں لے جایا گیا جہاں ایک مسلمان مجسٹریٹ نے میرے مذہب کی تبدیلی اور میری شادی کو قانونی قرار دے دیا۔
میرے مذہب کی تبدیلی اور ایک مسلمان سے شادی کی خبر جنگل میں آگ کی طرح تیزی سے پورے شہر میں پھیل گئی۔
مجھے اُس پل کا خوف تھا جب میری ملاقات میرے ماں باپ سے ہوگئی۔ میں کبھی بھی اپنے ماں باپ کے چہروں پر درد نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔
لیکن اب میں خود ہی اپنے ماں باپ کے لئے دُکھ کی وجہ بن گئی تھی۔ میری ماں کے چہرے کی صرف ایک ہی جھلک نے مجھے اپنی موت کا خواہش مند بنا دیا۔
میں اپنی ماں سے کچہ دیر بات کرنا چاہتی تھی۔ میں انہیں بتانا چاہتی تھی کہ میں اُن سے بہت پیار کرتی ہوں اور صرف ان کی حفاظت کے پیش نظر میں نے اپنا مذہب تبدیل کیا تھا۔
میں اپنے باپ کویہ کہنا چاہتی تھی کہ وہ ہر حال میں میری چھوٹی بہنوں کی حفاظت کریں ۔ میں چاہتی تھی کہ میرے بھائی جتنا جلدی ممکن ہو اس ملک کو چھوڑ کر چلے جائیں۔
میں تو اور بہت کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن میرے گھر والوں کی تکلیف دہ خاموشی اور درد دیکھ کر میں یہی سوچتی رہی کہ کاش میں لڑکی نہ ہوتی، میں پاکستان میں نہ پیدا ہوتی۔
کاش مجھ پر زبردستی کوئی مذہب تھوپنے کے بجائے مجھے اپنا مذہب اختیار کرنے کا حق حاصل ہوتا۔ کاش میں سب کو یہ سمجھا سکتی کہ ہندوں اور مسلمانوں کا خدا اصل میں ایک جیسا ہی ہے۔ کاش میں سب کو ایک ایسی پہچان دے سکتی جو ہمارا حق ہے۔
یہ سارے چہرے جو کبھی میرے جانے پہچانے تھے، اب ان کو دیکھ کربس یہی سوچتی ہوں کہ میں کون ہوں؟
میں ہوں تو ایک، لیکن سب کا درد میرا بھی درد بن چکا ہے۔ میں رچنا کماری، رنکل کماری، منیشا کماری ہوں۔ میں وہ ساری ہندو لڑکیاں ہوں جن کوپاکستان میں زبردستی اسلام قبول کروایا جائے گا۔
میں اُن کے خاندانوں کا خوف اور اُن کی تکلیف ہوں۔ میں اُن ساری لڑکیوں کی تکالیف ہوں جو اپنے اوپر ناانصافیوں کی وجہ سے اندر ہی اندر مرتی رہتی ہیں۔
میں ایک اقلیت ہوں جو ایک برداشت سے عاری معاشرے رہتی ہے۔
تبصرے (15) بند ہیں