راولپنڈی: فرقہ وارانہ کشیدگی میں 9 ہلاک، دوبارہ کرفیو کا نفاذ
راولپنڈی: راولپنڈی میں ہونے والے واقعے کے بعد لگائے گئے کرفیو میں چار گھنٹے کی نرمی ختم ہو گئی ہے اور ایک بار پھر شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں گزشتہ روز یومِ عاشورہ کے جلوس کے دوران دو گروہوں میں ہونے والے تصادم کے نتیجے میں کم سے کم نو افراد کی ہلاکت کے بعد صورتحال پر قابو پانے کے لیے شہر میں نافذ کر دیا گیا تھا تاہم شام میں حکومت کی جانب سے کرفیو میں چار گھنٹے کی نرمی کا اعلان کیا گیا تھا۔
ڈان نیوز کے مطابق رات 9 بجے سے ایک بجے تک راولپنڈی شہر میں کرفیو میں نرمی کی گئی تھی جبکہ کشیدہ صورت حال کے پیش نظر لاہور سے پانچ ہزار اضافی پولیس نفری کو بھی طلب کرلیا گیا ہے۔
وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ کرفیو میں نرمی اشیائے خوردونوش خریدنے کیلیے کی گئی جبکہ چار سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی تاحال برقرار ہے۔
تاہم ایک بجے کے بعد ایک بار پھر کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے جبکہ دارالحکومتب اسلام آباد میں اتوار دوپہر دو بجے تک موبائل سروس بند کر دی گئی ہے۔
تاحال حکومت کی جانب سے اس بات کا اعلان نہیں کیا گیا کہ کرفیو کا نفاذ کب تک رہے گا۔
◄تصادم کے بعد کا منظر تصاویر میں
ہفتے کی صبح ڈان نیوز ٹی وی پر نشر ہونے والی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ راولپنڈی کے رہائشی علاقوں میں لوگوں کو گھروں میں رہنے کے لیے مساجد سے اعلانات کیے گئے۔
پنجاب حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ شہر کی کشیدہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کرفیو نافذ کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ راولپنڈی کے علاقے فوارہ چوک کے مقام پر نماز عصر کے وقت ماتمی جلوس کے قریب دو گروہوں میں تصادم اس وقت ہوا جب دس محرم کا جلوس اس راستے سے گزر رہا تھا۔ اسی دوران نامعلوم افراد کی فائرنگ سے بھگدڑ مچ گئی اور نامعلوم افراد نے ماتمی جلوس کو روک کر پتھراؤ کیا جس سے متعدد افراد زخمی ہو گئے۔
پولیس نے ابتدائی بیان میں کہا تھا کہ جلوس جائے وقوعہ سے گزر رہا تھا کہ اس دوران جلوس کے شرکا نے تضحیک آمیز رویہ اپنانے پر ایک مدرسے سے تعلق رکھنے والے تین افراد کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔
حکام کے مطابق نامعلوم مشتعل افراد نے فوارہ چوک کے قریب کپڑے کی مارکیٹ کو آگ لگا دی جس سے کروڑوں روپے مالیت کا کپڑا اور دیگر سامان جل کر خاک ہو گیا اور علاقے میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہو گئی۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق واقعہ اس وقت رونما ہوا جب 10 محرم الحرام کا ماتمی جلوس ایک مسجد کے پاس سے گزرا جہاں اس وقت خطبہ جاری تھا۔
اے ایف پی کے مطابق اس موقع پر مشتعل نوجوانوں نے دوسرے گروہ پر حملہ کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکاروں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ موقع پر موجود صحافیوں کے کیمرے بھی توڑ دیے۔
سرکاری پریس نوٹ کے مطابق واقعے میں نو افراد ہلاک جبکہ کم از کم 50 زخمی ہوئے تاہم سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق حادثے میں ہلاکتوں کی تعداد دس ہو گئی ہے جبکہ تقریباً 40 افراد زخمی ہیں۔
ایک پولیس افسر افضل حسین نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ پولیس نے تصادم کو روکنے کی کوشش کی لیکن اس دوران دونوں جانب سے ایک دوسرے پر ہونے والے پتھراؤ سے پولیس افسران بھی زخمی ہوئے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے یوم عاشورہ پر راولپنڈی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کا نوٹس لیتے ہوئے حکام سے رپورٹ طلب کر لی۔
شہباز شریف نے فسادات کے ذمہ داروں کی نشاندہی کر کے ان کے خلاف سخت قانونی کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعے میں ملوث افراد قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکیں گے۔
متحدہ قومی موومنٹ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے ہنگامہ آرائی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ صورتحال پر قابو پانےکے لیے ہر ممکن اقدامات کیےجائیں۔
مجلس وحدت مسلمین اور جعفریہ الائنس نے بھی ہنگاموں کی مذمت کی اور حکومت پنجاب سے فائرنگ کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔
راولپنڈی دارالحکومت اسلام آباد سے صرف چند منٹ کی دوری پر واقع ہے جہاں پاکستانی فوج کا صدر دفتر جی ایچ کیو بھی موجود ہے۔
تبصرے (4) بند ہیں