• KHI: Maghrib 6:46pm Isha 8:02pm
  • LHR: Maghrib 6:18pm Isha 7:40pm
  • ISB: Maghrib 6:24pm Isha 7:48pm
  • KHI: Maghrib 6:46pm Isha 8:02pm
  • LHR: Maghrib 6:18pm Isha 7:40pm
  • ISB: Maghrib 6:24pm Isha 7:48pm

توہین عدالت کے مقدمے میں سیکریٹری دفاع پر فرد جرم عائد

شائع November 5, 2013

سپریم کورٹ ۔ —فائل تصویر

اسلام آباد۔: سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتجابات نہ کرانے کے حوالے سے توہین عدالت کے مقدمے میں سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائر آصف یاسین پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے ان کو نوٹس جاری کردیے ہیں جبکہ متعلقہ حکام کو سات دسمبر تک ہر حال میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی ہدایت کر دی ہے۔

منگل کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل بطور استغاثہ اور افتخار گیلانی سیکریٹری دفاع کے وکیل کے طور پر پیش ہوئے۔

افتخار گیلانی نے عدالت کے روبرو موقف اپنایا کہ توہین عدالت کے حوالے سے انہوں نے انٹرا کورٹ اپیل دائر کی ہے جس میں پانچ رکنی بینچ بنانے کے ساتھ یہ استدعا بھی کی گئی ہے کہ چیف جسٹس اس بینچ کا حصہ نہ بنیں اس لیے پہلے اس اپیل کو سن لیا جائے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ ان کی اپیل عدالت کی نظر سے نہیں گزری، اگر آپ کی طرف سے فوری سماعت کی ایک درخواست بھی د ی جاتی تو شاید بینچ بنا دیتے لیکن اب آپ کے موکل پر فرد جرم عائد کر دی جاتی ہے، اس دوران اپیل بھی سن لی جائے گی۔

افتخار گیلانی کا کہناتھاکہ اگر فرد جرم عائد ہونے کے بعد سزا ہو گئی تو اپیل سننے کا کیا فائدہ ہوگا، وہ تو غیر موثر ہو جائے گی لہٰذا پہلے اپیل پر فیصلہ کیا جائے۔

افتخارگیلانی نے مزید کہا کہ آئین اور کنٹونمنٹ بورڈز میں الیکشن سے متعلق تینوں طرح کے قوانین میں الیکشن کرانے کی ذمے داری وفاق پر عائد کی گئی ہے جبکہ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے، تمام متعلقہ قوانین میں سیکرٹری دفاع کا کہیں ذکرنہیں اور نہ ہی وہ بلدیاتی انتخابات کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیکریٹری دفاع نے یقین دہانی اپنے طور پر نہیں بلکہ متعلقہ اتھارٹی کے کہنے پر کرائی تھی البتہ میرے موکل کو اپنے طور پر عدالت کو ایسی یقین دہانی نہیں کرانی چاہیے تھی۔

چیف جسٹس نے کہاکہ یہ سب کچھ آپ فرد جرم کے بعد اپنے جواب میں کہیں، اس کے بعدعدالت نے سیکریٹری دفاع کا جواب مسترد کرتے ہوئے ان پر توہین عدالت میں فرد جرم عائد کر تے ہوئے نوٹس جاری کردیا۔

حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، 7 دسمبر تک انتخابات کرائیں

سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے مقدمے میں صوبائی حکومتوں کو نومبر یا 7دسمبر تک بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کسی صورت بھی چار ماہ کا وقت فراہم نہیں کرے گی، حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن ریاست میں آئین و قانون کا نفاذ ہونا چاہیے۔

منگل کو سماعت کے موقع پر چیف جسٹس کے استفسار پر اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے بتایا کہ حکومت نے گزشتہ تین ماہ میں آئی سی ٹی میں دیہی اور شہری حدود کی تقسیم سے متعلق وہ کام کیا ہے جو پچھلے پندرہ سال سے نہیں کیا جاسکا ، تاہم ہمیں حد بندیوں سے کے لیے مختصر وقت فراہم کیا جائے تاکہ اس کی تکمیل کے بعد احسن طریقے سے بلدیاتی انتخابات کاانعقاد کیاجاسکے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن ریاست میں آئین و قانون کا نفاذ ہونا چاہیے، 27 نومبر یا 7 دسمبر تک انتخابات کرائے جائیں، عدالت کسی صورت بھی چار ماہ کا وقت فراہم نہیں کرے گی، اس سے قبل سیکرٹری دفاع بھی توہین عدالت کرچکے ہیں۔

ایک استفسار پر عدالت کو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کنٹونمنٹ بورڈ کا 1924ء کا ایکٹ اور 2002ء کے آرڈیننس کی کچھ شقیں ایسی ہیں جو قابل عمل نہیں ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1924 کے کنٹونمنٹ بورڈ ایکٹ کے مطابق امیدوار کو چار سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے تاہم اگر چار سال کے بعد بھی انتخابات نہیں ہوتے تو وہ کام جاری رکھتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے واضح ہوتاہے کہ کنٹونمنٹ بورڈ غیر قانونی طور پر کام کرتی رہے، کیوں نہ کنٹونمنٹ بورڈ کے اکاؤنٹس منجمند کر دیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر انتخابات نہیں کرانا چاہتے تو پرانا نظام بحال کر دیں۔

اٹارنی جنرل نے درخواست کی کہ کنٹونمنٹ ایریا میں فوجی علاقے اور شہری علاقوں کو تقسیم کرنے کے لیے نئی حد بندیاں ضروری ہیں، سب سے بڑا مسئلہ سیکورٹی سے متعلق ہے اور دوسرا شہری رہائشیوں کے لیے ٹیکس کا نظام دیکھنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت کی جانب سے سیکریٹری دفاع کو توہین عدالت کے نوٹس سے متعلق متعلقہ حکام کو آگاہ کر نے کے ساتھ حدبندیوں کے لیے آرڈیننس وزیر اعظم کو بجھوا دیا گیا ہے لیکن سینٹ کا اجلاس شروع ہونے کی وجہ سے منظوری ممکن نہیں ہوسکی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے مناسب وقت فراہم کرے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت پہلے ہی بہت ریلیف دے چکی، آپ ترمیمی بل ضرور پیش کریں لیکن جو قانون پہلے سے بنا ہوا ہے اس پر عمل کیا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کنٹونمنٹس میں انتخابات سے متعلق سات روز میں رپورٹ جمع کر کے بتایا جائے کہ انتخابات کب کرائے جائیں گے یا کنٹونمنٹ ایکٹ 1924ء کے تحت پرانا نظام بحال کیا جائے۔

دوران سماعت خیبر پختونخواہ کے ایڈووکیٹ جنرل لطیف یوسفزئی نے پیش ہو کر بتایا کہ خیبر پختونخواہ حکومت نے ترمیمی بل منظور کر لیا ہے جبکہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے بنیادی امور پر کام ہو رہا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ حد بندیاں مکمل کرنے کے لیے 25دن کی مہلت دی جائے صوبے میں امن و امان کی صورت حال خراب ہے، صوبائی حکومت نے بلدیاتی نظام کے لیے ایک ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز بھی رکھے ہیں۔

عدالت نے صوبہ خیبر پختونخواہ سے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے بارے میں سات روز میں رپورٹ طلب کرتے ہوئے واضح کیا کہ مقناطیسی سیاہی، بیلٹ پیپرز کی چھپائی یا دیگر سامان فراہم کرنا عدالت کا کام نہیں

بعدازاں مقدمے کی سماعت ملتوی کردی گئی۔

تبصرے (1) بند ہیں

Azeem Hassan Nov 05, 2013 07:09pm
جناب چیف جسٹس صاحب آپ الیکشن نہ کرواءیں صرف میرے بچوں کو صاف دودھ مہیاء کرنے کے حکام جاری فرما دیں یا پھر اتنا عمل کروا دیں کہ میرے پیسوں کا صیح نعم البدل مہیاء کر دیا جاےء میں آپ کو منصف مان جا وں گا

کارٹون

کارٹون : 26 مارچ 2025
کارٹون : 25 مارچ 2025