تین سال میں آنے والے اسلحے کی رپورٹ طلب

کراچی: سپریم کورٹ نے کسٹم حکام سے گزشتہ تین برسوں میں پاکستان کی بندرگاہوں اور ڈرائی پورٹس پر آنے والے اسلحے کی رپورٹ آج طلب کر لی ہے اور اپنے عبوری حکم کہا ہے کہ امن و امان کی بحالی تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کیونکہ اس کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔
جمعرات کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کراچی بدامنی عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے عبوری حکم میں کہا کہ صوبائی حکومت نے غیر قانونی اسلحہ کی برآمدگی کے لیے مہم چلائی مگر اس کو کامیابی حاصل نہیں ہوسکی لیکن اس ذمے داری سے دوسرے ادارے بھی بری الذمہ نہیں ہیں، ان اداروں کو بھی اسلحہ کے خلاف کام کرنا چاہیے۔
عبوری حکم میں کہا گیا کہ کالے دھن سے حاصل ہونے والی رقم کراچی میں امن و امان خراب کرنے میں استعمال ہو رہی ہے۔
عدالت نے کہا کہ ڈائریکٹر جنرل رینجرز نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ایک وفاقی وزیر کی نگرانی میں اسلحے سے بھرے کنٹینرز لائے گئے، بعد میں ڈی جی رینجرز اس بیان سے دستبردار ہوگئے لیکن بیان کے علاوہ یہ ان کی ذمے داری بھی تھی کہ اس کی تحقیقات کریں۔
اعلیٰ عدلیہ کا کہنا تھا کہ کسٹم ٹیکس میں چوری کی جا رہی ہے اور درآمدی مصنوعات سے بچائی جانے والی ڈیوٹی کی رقم بدامنی کے لیے استعمال ہوتی ہے، چیئرمین ایف بی آر، چیف کلکٹر کسٹم اور کلکٹر کسٹم تسلیم نہیں کرتے کہ غیر قانونی اسلحہ کی آمد ہو رہی ہے لیکن پولیس اور رینجرز نے جو چھاپے مارے ہیں ان میں بھاری تعداد میں اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ یہ ادارے ناکام ہوئے ہیں۔
حکم میں کہا گیا کہ کراچی کو جب تک غیر قانونی اسلحہ سے پاک نہیں کیا جائے گا اس وقت تک موجودہ بہتر صورتحال کو برقرار رکھنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ وفاقی محتسب اعلیٰ شعیب سڈل نے لاپتہ کنٹینروں کی تحقیقات کی ہے جس میں کئی حقائق سامنے آئے ہیں، اس کی ایک کاپی چیئرمین ایف بی آر کے پاس بھی موجود ہے لیکن انہوں نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔
عدالت نے کسٹم کے سابق رکن رمضان بھٹی کمیشن کی رپورٹ سے اتفاق نہیں کیا کہ سمندری راستے سے اسلحہ نہیں لایا جا رہا ہے، اسلحے کو کچھ دیر کے لیے بھول جائیں، جو بڑی مقدار میں پیٹرول اور ڈیزل ایران سے لانچوں میں لایا جا رہا ہے یہ کسٹم حکام کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
عبوری حکم میں مزید کہا گیا کہ کسٹم انٹیلی جنس نے اسلحہ اور منشیات کی کراچی میں دستیابی کی تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ سہراب گوٹھ اور یوسف گوٹھ میں بڑے اڈے موجود ہیں لیکن کسٹم، میرین سیکیورٹی ایجنسی، کوسٹ گارڈ، اے این این ایف کے موقف سے ایسا لگتا ہے کہ ان کی خواہش نہیں ہے کہ منشیات اور اسلحہ کی اسمگلنگ کا خاتمہ ہو۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ڈی جی اے این ایف سے کہا کہ آپ منشیات کے خلاف آپریشن کرنا ہی نہیں چاہتے، ان چیزوں کو کنٹرول کرنے کے لیے آرمی کے لوگ ان اداروں میں لائے جاتے ہیں، آپ کراچی میں منشیات کے خلاف آپریشن کریں اور جمعہ کو شہر کے منشیات سے پاک ہونے کی کلین چٹ لے کر آئیں۔
چیف جسٹس نے ایف بی آر کے چیئرمین سے کہا کہ اگر امریکا کے کنٹینرز نہیں تھے تو خط کیوں لکھا گیا۔
کسٹم حکام سے مخاطب ہوتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تین روز سے آپ سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ لاپتہ ہونے والے کنٹینرز میں کیا تھا مگر آپ عدالت کو نہیں بتا رہے، آپ کو پتا ہے کہ ان کنٹینرز میں کیا تھا لیکن آپ جان بوجھ کر ہمیں نہیں بتا رہے۔
انہوں نے کہا کہ شعیب سڈل اور رمضان بھٹی کی رپورٹس کے مطابق کنٹینرز آئے تھے جبکہ خفیہ ایجنسی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان میں جدید ہتھیار تھے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ تمام اداروں کے ساتھ اجلاس کریں اور منشیات کی روک تھام کے لیے حکمت عملی کل تک عدالت میں پیش کریں۔
سپریم کورٹ نے کسٹم حکام سے گزشتہ تین برسوں میں پاکستان کی بندرگاہوں اور ڈرائی پورٹس پر آنے والے اسلحے کی رپورٹ آج طلب کر لی ہے جبکہ وفاقی محتسب اعلیٰ شعیب سڈل کمیشن رپورٹ میں جن لاپتہ کنٹینروں کا ذکر کیا گیا ہے عدالت نے اس کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں کہ ان میں کتنے اسلحہ بارود کے تھے۔ بعدازاں کیس کی سماعت جمعہ تک ملتوی کر دی گئی۔