موسمِ سرما میں سورج کی پہلی کرن
ناروے کے ایک قصبے اریکھن (Rjukan) کے لوگ ایک عظیم الجثّہ آئینے کے تنصیب کی خوشی منارہے ہیں، جس نے ان کے قصبے کے مرکز کو سردیوں کے دوران سورج کی روشنی سے منور کردیا ہے۔
چونکہ ناروے عرض البلد (Latitude) کی انتہائی بلندی پر واقع ہے، اس لیے یہاں مختلف موسموں کے دوران دن کی روشنی کے حوالے سے بہت بڑی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ قطب شمالی کے دائرے کے شمالی خطے میں واقع ہونے کی وجہ سے یہاں مئی کے اواخر سے لے کر جولائی کے آخری دنوں تک پورے عرصے میں دن اور رات کے دوران سورج افق پر نظر آتا رہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ناروے کو ”آدھی رات کے سورج کی سرزمین“ بھی کہا جاتا ہے۔ جبکہ نومبر سے جنوری کے اواخر تک شمالی علاقوں میں سورج افق کی بلندی پر نہیں چڑھتا، یوں دن کی روشنی کا وقت ملک بھر میں بہت مختصر ہوجاتا ہے۔
ناروے کا یہ قصبہ اریکھن (Rjukan) ایک گہری وادی میں واقع ہونے کی وجہ سے سردیوں کے چھ ماہ کے دوران سورج کی روشنی سے مکمل محروم رہتا ہے، اس وادی کے اردگرد واقع بلندوبالا پہاڑوں کی وجہ سے سردیوں کے موسم میں سورج کی روشنی اس وادی تک نہیں پہنچ پاتی ہیں۔
جب کل بروز بدھ تیس اکتوبر کو اس قصبے کے سامنے واقع پہاڑ پر نصب عظیم الجثّہ آئینوں کا باضابطہ افتتاح کیا گیا تو لوگوں کا ایک ہجوم اس موقع پر موجود تھا، سردیوں کے مہینے میں پہلی مرتبہ سورج کی روشنی کو زمین پر اُترتے دیکھا تو اس چھوٹے سے قصبے کے لوگوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ ان تین آئینوں کا سائز 187 مربع فٹ یا 17 مربع میٹر ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قصبے میں آئینے نصب کرکے سردیوں کے مہینوں میں سورج کی روشنی کے حصول کا خیال آج سے ایک صدی قبل پہلی مرتبہ ایک صنعتکار سیم ایڈی نے پیش کیا تھا۔وہ قریبی آبشار کے دامن میں واقع ایک ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ کے کارکنوں کے لیے ایک قصبے کی تعمیر کر رہے تھے۔
لیکن افسوس کہ یہ معروف انجینئر اپنے اس منصوبے کو حقیقت میں تبدیل ہوتا نہیں دیکھ سکے۔ لیکن یہ پلانٹ اور ٹیلی مارک ٹاؤن جس کی انہوں نے بنیاد رکھی تھی، اس کے حوالے سے ایک خاص تاثر قائم ہوگیا تھا، ناروے کے باشندے اس قصبے کو جنگ کے دنوں میں جنگی ماحول سے دور رہنے کے لیے ایک بہترین جگہ تصور کرتے تھے۔
مقامی سیاحتی ادارے کے رکن کیرن رو نے ایسوسی ایٹیڈ پریس کو بتایا کہ ”یہ ایک خوشگوار دن تھا، اس سے پہلے ہم اپنے قصبے سے جب آسمان کی طرف نگاہ دوڑاتے تھے تو وہ ہمیں نیلگوں دکھائی دیتا تھا، ہم جانتے تھے کہ سورج نکلا ہوا ہے، لیکن بلندو بالا پہاڑ اسے اپنی اوٹ میں لیے رہتے تھے، اور وہ سردیوں بھر ہماری نظروں سے پوشیدہ رہتا تھا۔ اس سے ہم پر محرومی کا احساس بھی غالب رہتا تھا۔“
ان آئینوں کو پندرہ سو فٹ کی بلندی پر ہیلی کاپٹر کے ذریعے نصب کیا گیا، جن کی تیاری اور تنصیب پر تقریباً آٹھ لاکھ پچاس ہزار ڈالرز کی لاگت آئی ہے، یہ آئینے کمپیوٹر کے ذریعے یا خود کار انداز میں سورج کی روشنی کے رُخ پر از خود گھوم جاتے ہیں، انہیں عام طور پر شمسی توانائی کے حصول کے لیے تیار کیا جاتا ہے، جو سورج کی روشنی سے بھرپور خطوں مثلاً مشرق وسطیٰ میں استعمال کیے جاتے ہیں۔
اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی عظیم الجثہّ آئینے کی تنصیب کا منصوبہ ایک قابل عمل آپشن میں تبدیل ہوتا گیا، اور 2006ء کے دوران اٹلی کے ایک گاؤں میں اسی طرح کا ایک آئینہ سورج کی روشنی کے حصول کے لیے نصب کیا گیا تھا۔
اریکھن (Rjukan) میں آئینے کی تنصیب کے منصوبے کو اس قصبے کے آرٹسٹ مارٹن اینڈریسن نے 2005ء میں بحال کیا۔
اریکھن (Rjukan) میں مقیم برگسلینڈ نے کہا کہ اریکھن (Rjukan) وہ مقام ہے جہاں ایک ناممکن کو ممکن بنا دیا گیا ہے۔