• KHI: Partly Cloudy 25°C
  • LHR: Clear 19.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.9°C
  • KHI: Partly Cloudy 25°C
  • LHR: Clear 19.1°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.9°C

جنوبی افریقہ نہیں جیتا، پاکستان ہار گیا

شائع October 27, 2013

کپتان مصباح الحق ایک غیر ضروری شاٹ کھیل کر وکت گنوا بیٹھے۔ فوٹو اے پی

عوام کی جنوبی افریقہ کے خلاف ابو ظہبی میں ہونے والے پہلے ٹیسٹ میں جیت کی خوشی تو دبئی ٹیسٹ کے پہلے روز اسی وقت ہوا ہو گئی تھی جب پاکستانی ٹیم 99 رنز پر ڈھیر ہو گئی اور لیکن جب جنوبی افریقہ نے بیٹنگ کی شروعات کی تو اس نے قومی کھلاڑیوں کے دماغ سے بھی جیت کا نشہ اتار دیا۔

در حقیقت اگر اس ٹیسٹ کا جائزہ لیا جائے تو گریم اسمتھ اور عمران طاہر کی شاندار کارکردگی کے باوجود اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ ٹیسٹ جنوبی افریقہ نہیں جیتا بلکہ گرین شرٹس اپنی غلطیوں سے ہارے ہیں۔

پہلے ٹیسٹ میچ میں بلاشبہ پاکستانی ٹیم نے پروٹیز کو چاروں شانے چت کرتے ہوئے کھیل کے ہر شعبے میں آؤٹ کلاس کیا اور سات وکٹ کی فتح اپنے نام کی۔

لیکن جب دوسرے ٹیسٹ کے پہلے دن کھانے کے وقفے تک 60 رنز پر چھ پاکستانی کھلاڑی پویلین لوٹے تو سب کو یقین ہو گیا کہ یہی ٹیم ہرارے میں زمبابوے سے ہاری تھی۔

میچ کے دوسرے دن جب ڈیل اسٹین آؤٹ ہوئے تو اس وقت تک پاکستان کی میچ میں وپاسی کی امیدیں برقرار تھیں لیکن اگلی ہی گیند پر ڈی ویلیئرز کا کیچ ڈراپ ہونے کے ساتھ ہی پاکستان میچ سے باہر ہو گیا اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عدنان اکمل کی جانب سے ڈراپ کیے جانے والے اس کیچ نے حریف کو سیریز برابر کرنے کا اہم موقع فراہم کیا۔

اس بات کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ڈی ویلیئرز کے آؤٹ ہونے کے ساتھ ہی تقریباً پچاس رنز کے اندر پوری جنوبی افریقی بیٹنگ لائن کی بساط لپٹ گئی تھی۔

عدنان اکمل کو بیٹنگ کی اضافی صلاحیتوں کی وجہ سے سرفراز احمد پر ترجیح دیتے ہوئے سیریز کے لیے ٹیم کا حصہ بنایا گیا لیکن بیٹنگ میں تو وہ کچھ ثابت نہ کر سکے بلکہ الٹا وکٹ کیپنگ میں اپنے بڑے بھائی کامران اکمل کے نقش قدم پر چلتے دکھائی دیے۔

بیٹنگ کی بات کی جائے تو دوسرے ٹیسٹ میں اوپنرز کی ناکامی سے قطعہ نظر اظہر علی اور یونس خان کی کارکردگی لمحہ فکریہ ہے خصوصاً اظہر جو گزشتہ 14 اننگ میں محض دو نصف سنچریاں کی مدد سے صرف 270 رنز کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

تجربہ کار یونس خان، دوسری اننگ میں جاک کیلس کی جانب سے کیچ چھوٹنے کے باوجود جس انداز میں آؤٹ ہوئے، وہ یقیناً ان جیسے کھلاڑی کو زیب نہیں دیتا۔

اس حوالے سے سب سے زیادہ افسوسناک پہلو مصباح الحق کا ایک پارٹ ٹائم باؤلر کے ہاتھوں آؤٹ ہونا تھا، ایک موقع پر مصباح اور اسد شفیق کی پراعتماد بیٹنگ دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاید دونوں بلے باز میچ کو پانچویں دن تک کھینچ کر ٹیسٹ ڈرا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن یہ بھی محض دیوانے کا خواب ثابت ہوا۔

شکست کے باوجود محمد عرفان کی باؤلنگ اور اسد شفیق کی سنچری سے یقیناً ٹیم مینجمنٹ کو کچھ آسرا ہوا ہو گا۔

سیریز سے قبل فٹنس کو بنیاد بنا کر عرفان کو ٹیسٹ سیریز سے ڈراپ کرنے کے مشورے زیر غور تھے لیکن طویل القامت باؤلر نے ناقص فیلڈنگ کے باوجود اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا۔

دورہ زمبابوے کے بعد سے شدید دباؤ کا شکار اسد شفیق نے پہلے ٹیسٹ میں نصف سنچری بنا کر فارم میں واپسی کا ثبوت دے دیا تھا لیکن دبئی میں ایک مشکل وقت میں جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلی گئی ایک اور سنچری اننگ نے کیپ ٹاؤن ٹیسٹ کی یاد تازہ کر دی جب نوجوان بلے باز نے سنچری اسکور کر کے مشکلات سے دوچار پاکستانی ٹیم کو یونس خان کی مدد سے سہارا دیا تھا۔

یہاں پروٹیز کپتان گریم اسمتھ کی تعریف نہ کرنا یقیناً نا انصافی ہو گی جنہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی پانچویں ڈبل سنچری اسکور کرنے کے ساتھ ساتھ نو ہزار رنز بھی مکمل کر لیے جبکہ پہلی اننگ میں پانچ وکٹیں لینے والے عمران طاہر نے بھی لاجواب انداز میں ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی کی۔

بلاشبہ پہلی اننگ میں 99 رنز پر آؤٹ ہونے کے بعد پاکستانی ٹیم کامیابی کی مستحق نہ تھی لیکن اگر ڈراپ کیچز سے مہمان ٹیم کا ساتھ نہ نبھایا جاتا تو شاید پاکستان ایک بار پھر گزشتہ سال کی تاریخ دہرانے میں کامیاب ہو جاتا۔

پہلی اننگ کی ناکامی کے بعد خراب فیلڈنگ اور کسی حد تک ناقص باؤلنگ اور پھر دوسری اننگ میں بھی غلط شاٹ سلیکشن اور جلد بازی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس شکست میں جنوبی افریقہ کی محنت سے زیادہ ہماری اپنی کرم فرمائیاں شامل تھیں۔

اس شکست کے ساتھ ہی پاکستانی ٹیم نے ایک بار پھر خود کو ناقابل اعتبار ثابت کر دیا لیکن سوال یہ ہے کہ آخر قومی ٹیم کی کارکردگی میں عدم تسلسل کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا اور کیا ان شکستوں کے بعد بھاری تنخواہوں پر بھرتی کوچ اور دیگر اسٹاف سے بھی سرزنش کی جائے گی۔

جیت داغدار:

بال ٹیمپرنگ کی غلطی تسلیم کرنے والے فاف ڈیو پلیسی امپائر سے بات کرتے ہوئے۔ فوٹو رائٹرز

جنوبی افریقہ دبئی ٹیسٹ جیت کر سات سال بعد بیرون ملک ٹیسٹ سیریز میں شکست سے تو بچ گیا لیکن بال ٹیمپرنگ نے عالمی نمبر ایک ٹیسٹ ٹیم کی اس فتح کو داغدار کر دیا۔

میچ کے تیسرے روز جنوبی افریقی کھلاڑیوں فاف ڈیو پلیسی اور ورنون فلینڈر کی جانب سے ایک ایسے موقع پر گیند میں تبدیلی کی کوشش کی گئی جب وہ فتح کی راہ پر گامزن تھی لیکن اس حرکت سے میچ میں فتح کے باوجود مہمان ٹیم اخلاقی طور پر شکست سے دوچار ہو گئی۔

لیکن اس سے دلچسپ اور افسوسناک پہلو جنوبی افریقی کھلاڑی ڈیو پلیسی کی جانب سے جرم کا اقرار کرنے کے باوجود میچ ریفری ڈیوڈ بون کا ان پر محض 50 فیصد میچ فیس کا جرمانہ عائد کرنا تھا حالانکہ ٹی وی پر دنیا بھر کے لاکھوں شائقین نے پروٹیز کھلاڑی کی اس دیدہ دلیری کو دیکھا۔

اس عمل سے زیادہ ریفری کے فیصلے سے 'جینٹل مین گیم' کو زیادہ گہری گزند پہنچی جہاں دنیائے کرکٹ کے سابق کھلاڑی آئی سی سی کے اس دہرے معیار پر سراپا احتجاج دکھائی دیے۔

آئی سی سی کی جانب سے ماضی میں بھی دہرے معیار کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے اور اس پر انگلیاں بھی اٹھائی جاتی رہی ہیں لہٰذا آئی سی سی اس بات کا کھل کر اعلان کر دے کہ کمزور خصوصاً ایشین ٹیموں کے علاوہ بقیہ ٹیمیں آئی سی سی کے قوانین سے بری الذمہ ہیں۔

بصورت دیگر کرکٹ کی عالمی باڈی اپنے کردار سے انصاف کرتے ہوئے غیر جانبداری ثابت کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ٹیموں کی رینکنگ اور بورڈز کی طاقت سے قطع نظر ہر کسی پر قوانین لاگو ہوں گے۔

تبصرے (1) بند ہیں

hussainy Oct 27, 2013 05:50pm
شریفوں کے کھیل کرکٹ کو دوبارہ شریفوں کا بنانے کےلئے سٹہ بازی کا مکمل خاتمہ ضروری ہے۔

کارٹون

کارٹون : 24 دسمبر 2025
کارٹون : 23 دسمبر 2025