• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

پاکستان میں غلامی کی جدید شکلیں

شائع October 24, 2013

MDG : Slavery and bonded labour : A boy makes bricks at a brick factory in pakistan
پاکستان میں جبری مشقت کے علاوہ جبر و تشدد کی مختلف بھیانک صورتوں میں انسانوں کی ایک بڑی تعداد غلاموں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی

واک فری فاؤنڈیشن، آسٹریلیا نے دنیا میں غلامی کی جدید اقسام میں موجودگی سے متعلق چند دن قبل ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ  دنیا بھر کی نسبت ایشیائی خطے میں ایسے  افراد کی تعداد کہیں زیادہ ہے جو غلامی جیسے حالات میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں،ان ممالک کی فہرست میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ یہاں ہم مذکورہ رپورٹ میں پاکستان سے متعلق حصے کا خلاصہ پیش کررہے ہیں۔

کمزور معیشت، امن و امان اور قومی سلامتی کی زوال پذیر صورتحال اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی پاکستان میں جدید دور کی غلامی خاص طور پر بچوں اور نسل در نسل اپنے مالکوں کے پاس مزدوری کرنے والے افراد کے اضافے کا سبب بن رہی ہے۔

لوگوں ، خاص طور پر بچوں کو غلامی کی مختلف صورتوں کا شکار بنانے میں غربت اور جہالت بے رحمی سے مدد کررہی ہے۔ پاکستان میں جدید غلامی بنیادی صنعتوں، کارخانوں، تجارتی جنسی استحصال، جبری گداگری اور گھریلو ملازموں سے جبری مشقت کی طرزوں میں پائی جاتی ہے۔

پاکستان میں جبری طور پر لی جانے والی مشقت ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ایشین ڈیویلپمنٹ بینک کے تخمینے کے مطابق اٹھارہ لاکھ افراد جبری طور پر مزدوری کررہے ہیں، جبکہ بہت سی این جی اوز کا تخمینہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔

کام کی تلاش میں شہروں کا رُخ کرنے والے مردوں، عورتوں اور بچوں کو جبری مشقت نے بڑی حد تک متاثر کیا ہے، اور اطلاعات کے مطابق بہت سی صنعتوں، خاص طور پر اینٹوں کے بھٹّوں کے علاوہ زراعت، ماہی گیری اور کانکنی کے شعبوں میں بھی یہی صورتحال موجود ہے۔

سندھ اور پنجاب کے صوبوں میں قرض کی عدم ادائیگی کی صورت میں نسل در نسل چلنے والی جبری مشقت ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ خصوصاً سولہ لاکھ افغان مہاجرین اس خطرے کی زد میں ہیں، جن کی بڑی تعداد ایسی غیرقانونی معیشت میں کام کررہی ہے۔

اینٹیں تیار کرنے کی صنعت بطورخاص جبری مشقت کا ایک بڑا گڑھ بن چکی ہے، اس سے  بچے ہی گھائل نہیں ہیں، بلکہ روایتی طور پر نچلی ذات کے مزدور گھرانوں کا بھی استحصال ہورہا ہے۔غیر سرکاری ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ پنجاب میں ایسے پانچ ہزار اینٹوں کے بھٹے موجود ہیں۔

بہت سے بالغ پاکستانی مرد اور خواتین گلف کی ریاستوں، ایران، ترکی، ساؤتھ افریقہ، یوگینڈا، مالدیپ، یونان اور بہت سے یورپی ممالک نقل مکانی کرگئے جہاں وہ غیرپیشہ ورانہ ملازمتیں مثلاً گھریلو کام کاج، ڈرائیونگ اور تعمیراتی کام کرنے پر مجبور ہیں۔

نقل مکانی کرنے والے بہت سے افراد غیرقانونی لیبر ایجنٹوں کی جعلی بھرتیوں کا شکار ہوکر دباؤ، اجرتوں کی عدم ادائیگی، پاسپورٹ قبضے میں کرلینا اور جسمانی استحصال سے متاثر ہوتے ہیں۔

ایسی بہت سی رپورٹیں موجود ہیں کہ پاکستان میں بچوں سے جبری مشقت کرائی اور بھیک منگوائی جاتی ہے اور ان کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ انتہاپسند اور دہشت گردوں کے گروہ انہیں جبری طور پر بھرتی کرتے ہیں، جہاں وہ جسمانی، جنسی اور نفسیاتی طور سے بدسلوکی کا شکار ہوتے ہیں۔

ایران اور پاکستان کے درمیان بچوں کی جنسی اسمگلنگ کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔ پاکستان میں چائلڈ لیبر کی بہت بڑی شرح ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں پانچ سے چودہ سال کی عمر کے 38 لاکھ بچے کام کرنے پر مجبور ہیں۔

یہاں انسانی اعضاء کی اسمگلنگ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق  2011ء کے وسط میں ملک کے اندر گردے ٹرانسپلانٹ کرنے  کی کل بیالیس غیر قانونی کلینکس کام کررہے تھے، جن میں سے چودہ صرف پنجاب میں ہیں۔

پاکستان میں جدید غلامی کے حوالے سے ثقافتی رسومات بھی خاصی حد تک سنگین کردار ادا کرتی ہیں۔ مسلمانوں میں غریب رشتہ دار اور ہندوؤں میں نچلی ذاتوں کے لوگ کو بطورخاص ان کے خطرے کی زد میں رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان میں ونی اور سورہ کی رسموں پر آج بھی عمل کیا جاتا ہے۔ ان رسموں کے تحت ایک لڑکی کی جبراً اپنے دشمن قبیلے کے مرد سے شادی کردی جاتی ہےتاکہ دو قبیلوں کے درمیان جاری خونی دشمنی کا خاتمہ کیا جاسکے۔ان رسموں کے تحت لڑکیوں اور عورتوں کی جبری شادی کی شرح بہت زیادہ ہے۔

بچوں کی شادی پر بندش کے ایکٹ 1929ء میں واضح کیا گیا ہے کہ سولہ سال کی عمر کی خواتین کی شادی قانونی طور پر جائز ہے، یہ عمر عالمی سطح پر رائج قوانین سے دوسال کم ہے۔

مردوں کو اٹھارہ سال کی عمر میں شادی کی قانونی اجازت ہے، جس سے صنفی امتیاز کی نشاندہی ہوتی ہے۔ شرعی قانون میں شادی کے لیے بلوغت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، اور کسی عمر کی وضاحت نہیں کی گئی۔ ان تضادات نے ساتھ بچوں کی شادی کے ایکٹ کی دفعات کے نفاذ کو مشکل بنادیا ہے،یہی وجہ ہے کہ یہ قانون بڑی حد تک بچوں کی شادیوں کو روکنے میں غیر مؤثر ثابت ہوا ہے۔

پاکستان میں جدید غلامی سے نمٹنے کے لیے حکومتی کوششیں انتہائی غیرموثر اور غیر مربوط ثابت ہوئی ہیں۔ یہاں اب بھی قواعد و ضوابط میں بہت بڑا فرق موجود ہے، اور جدید غلامی سے متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے کوئی پروگرام موجود نہیں ہے۔

پاکستان جدید غلامی کو روکنے کے لیے بہت سے عالمی معاہدوں کی توثیق کرچکا ہے، لیکن اقوامِ متحدہ کے اسمگلنگ پروٹوکول یا ڈومیسٹک ورک کنونشن کی توثیق اب تک نہیں کی ہے۔

کوئی نہیں جانتا کہ حکومت پاکستان نے جدید غلامی کو روکنے کے لیے حکومت پاکستان اپنے سالانہ بجٹ میں کس قدر رقم مختص کرتی ہے۔ 2010ء کے دوران مرکز نے لیبر انسپکشن کی ذمہ داری صوبوں کو تفویض کرکے اپنی ذمہ داری کم سے کم کردی تھی، اور مقامی قوانین کے تحت لیبر انسپکٹروں کے اختیارات ہر صوبے میں الگ الگ ہیں۔

اس حوالے سے دستیاب معلومات  میں وضاحت کی شدید کمی نمایاں ہے، اور غلامی کو روکنے کے لیے کس قدر ذمہ دارانہ اقدامات اُٹھائے ہیں۔ عام طور پر مزدور بدترین صورتحال سے دوچار ہے ، لیبر قوانین کا نفاذ نظر نہیں آتا، اور کرپشن کی بلند سطح برقرار ہے۔

پاکستان انسانی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے ایک قومی ایکشن پلان رکھتا ہے، جسے وزارت داخلہ نے تیار کیا ہے۔ اس سے جدید غلامی کے خلاف ملک کے ردعمل سے متعلق رہنمائی ملتی ہے۔

فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے انسانی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے ایک یونٹ قائم کر رکھا ہے۔اگرچہ اس یونٹ کا اپنا ایک بجٹ مختص ہے، لیکن اس کی استعداد اور اس کی تربیت کا معیار غیر واضح ہے۔ اس کا قیام بھی اس لیے عمل میں آیا ہے کہ ایف آئی اے بنیادی طور پر بین الاقوامی اسمگلنگ کے حوالے سے فکرمند ہے، اور اس کی توجہ پاکستانی عوام کی غلامی پر مرکوز نہیں ہے۔

پاکستان میں جدید غلامی کے جرم کو پیچیدہ فریم ورک اور بہت سے قانونی اور باقاعدہ نظام کے ذریعے فروغ مل رہا ہے۔

غلامی پاکستانی آئین کے تحت ممنوع ہے۔ جدید  غلامی کی کچھ اقسام پاکستان پینل کوڈ میں جرم قرار دی گئی ہیں، لیکن ان کے درمیان سنگین حد تک خلا موجود ہے۔ مثلاً بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی انسانی اسمگلنگ، 2002ء کے انسانی اسمگلنگ کو روکنے اور اس پر قابو پانے کے آرڈیننس کے تحت ایک جرم ہے، لیکن ملک کے اندر انسانی اسمگلنگ جرم نہیں ہے۔ اس آرڈیننس کے تحت قانونی کارروائی اور سزا حکومت کی طرف سے دی جائے گی، لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ سزا بے ضابطہ نقل مکانی پر دی جائے گی یا پھر جدید غلامی کی صورتحال میں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024