• KHI: Zuhr 12:32pm Asr 4:14pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:28pm
  • ISB: Zuhr 12:08pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:32pm Asr 4:14pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:28pm
  • ISB: Zuhr 12:08pm Asr 3:27pm

پاکستان میں چالیس ہزار افغان سم کارڈ استعمال ہورہے ہیں: نیب

شائع October 24, 2013

نیب نے پشاور ہائی کورٹ کو بتایا کہ ملک میں دہشت گردی، اغوا برائے تاوان اور بھتہ وصولی کے لیے افغان سم کارڈ کا استعمال عام ہے۔ —. فائل فوٹو

پشاور: پاکستان میں کام کرنے والی افغان ٹیلی کام کمپنیوں کی چالیس ہزار سے زیادہ موبائل فون سمیں استعمال کی جارہی ہیں، اور ان میں سے زیادہ تر دہشت گردی کی کارروائیوں، اغوا برائے تاوان اور بھتّہ وصولی میں استعمال ہورہی ہیں۔

یہ معلومات غیر رجسٹرڈ سموں سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کے دوران بدھ تیئس اکتوبر کو قومی احتساب بیورو (نیب) خیبر پختونخوا کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے ایک بینچ کے سامنے پیش کی گئیں۔

اس سے قبل چیف جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس عبداللہ خان چمکنی نے نیب کے ڈپٹی پروسیکیوٹر جنرل جمیل خان سے کہا تھا کہ وہ افغان موبائل فون کمپنیوں کے غیر رجسٹرڈ سم کارڈز کی انکوائری کے بارے میں عدالتی حکم پر ایک ابتدائی رپورٹ تیار کریں۔جمیل خان نے کہا کہ اس وقت دو طریقہ کار کے ذریعے افغان سم کار آپریٹ کیے جاتے ہیں، کچھ کیسز میں انہیں افغانستان میں ایکٹیو کیا جاتا ہے اور افغانستان سے آنے والے سگنلز کے ذریعے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ دوسری کٹیگری میں پاکستانی موبائل فون آپریٹر کی طرف سے متعلقہ افغان کمپنی کو رومنگ کی سہولت دینے سے یہ سم کارڈ کام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اتصالات ٹیلی کام کمپنی افغانستان اور پاکستان میں کام کررہی ہے، اور دونوں ملکوں میں رومنگ کی سہولت فراہم کرتی ہے۔

نیب کے عہدے دار نے کہا کہ پاکستانی سیلولر ٹیلی کام کمپنیوں کو بہت سے قبائلی علاقوں سے باہر نکالا جاچکا ہے، اور اسی وجہ سے  وہاں کے لوگ افغان سم کارڈز استعمال کررہے ہیں۔ افغان کمپنیوں کے سم کارڈز عام طور پر کال کرنے والے افراد اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

جمیل خان نے کہا کہ نیب کے اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں یوفون کے ایک کروڑ ستانوے لاکھ صارفین ہیں، تین کروڑ ساٹھ لاکھ موبی لنک، تین کروڑ ٹیلی نار، ایک کروڑ انیاسی لاکھ زونگ کے اور وارد کے دو کروڑ صارفین ہیں۔

پچھلے ماہ ہونے والی آخری سماعت کے دوران اس عدالتی بینچ نے حکم دیا تھا کہ اگر ایک غیر رجسٹرڈ یا غیرقانونی طریقے سے رجسٹر کیے گئے  موبائل فون سم کارد کا دہشت گردی کی کسی کارروائی، بشمول بم دھماکے میں استعمال کیا گیا، تو متعلقہ کمپنی قصاص اور دیت کے قانون کے تحت ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کے قانونی ورثاء کو معاوضہ ادا کرنا چاہئیے۔

بعد میں دو اکتوبر کو اس عدالتی بینچ نے پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کے لیے ایک اور حکم جاری کیا کہ افغان موبائل فون کمپنیوں کو دی جانے والی رومنگ کی سہولت پندرہ دن کے اند بند کردی جائے۔ یہ فیصلہ دہشت گردی اور اغوا برائے تاوان کےکیسز کی بڑی تعداد میں افغان کمپنیوں کے سم کارڈ کے استعمال کو دیکھتے ہوئے کیا گیا تھا۔  اس وقت سیلولر ٹیلی کام کمپنیوں کے سربراہوں کی گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کیے گئے جو گرفتاری میں ناکامی کے بعد واپس لے لیے گئے۔

تاہم بدھ کے روز بینچ نے کارروائی کو مزید آگے نہیں بڑھایا اور کہا کہ جب تک سپریم کورٹ کا اس معاملے پر ایک فیصلہ نہیں آجاتا اس وقت تک آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔

بعض سیلولر ٹیلی کام کمپنیوں نے پشاور ہائی کورٹ کے عبوری حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا، جس میں ہائی کورٹ نے اس مقدمے کی کارروائی کے دوران پیر اکیس اکتوبر کو پابندی لگائی تھی۔

چیف جسٹس نے پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اشتیاق ابراہیم کی درخواست پر اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔

اس مقدمے کی پچھلی سماعت کے دوران عدالت نے افغان کمپنیوں کے سم کارڈ کے دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال کا بھی نوٹس لیا تھا۔

موبی لنک کمپنی کے وکیل عاطف علی خان نے بدھ کو عدالتی بینچ کو آگاہ کیا کہ سپریم کورٹ نے عدالت کو اس مقدمے کی کارروائی سے روک دیا ہے، اور اب اس کی اگلی سماعت آٹھ نومبر کو ہوگی۔

چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے دیکھا کہ درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ کو اس بات سے مطلع نہیں کیا تھا کہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں زیادہ تر افغان سم کارڈ استعمال کیے جاتے ہیں، یا پھر غیر رجسٹرڈ اور غیرقانونی طور پر رجسٹر کرائے گئے پاکستانی ٹیلی کام کمپنیوں کے سم کارڈ استعمال ہوتے ہیں۔

عدالتی بینچ نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے ایڈوکیٹ جنرل کو مناسب طریقے سے اعلیٰ عدالت کو اس معاملے کے  پس منظر کے بارے میں رہنمائی دینی چاہئیے۔

انہوں نے تجویز دی کے بم ڈسپوزل اسکواڈ کے اے آئی جی شفقت ملک موزوں شخصیت ہوسکتے ہیں، جو پولیس کی جانب سے پیش ہوں، جو اس کی اچھی مہارت رکھتے ہیں کہ کس طرح دھماکہ خیز ڈیوائس میں سیل فون کس طرح استعمال کیے جاتے ہیں، اور کس قدر واقعات میں اس طرح موبائل فون استعمال کیے گئے تھے۔

پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ افغان سم کارڈز اور غیر رجسٹرڈ سم کارڈ دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال ہونے کے بعد ایک خطرہ بن چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والوں کی لاشیں اُٹھا اُٹھا کر تھک گئے ہیں اور حکومت کو چاہئیے کہ وہ اس کے غلط استعمال کی جانچ پڑتال میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئیے۔

نیب خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹر جنرل ریٹائرڈ کرنل شہزاد انور بھٹی اور ڈپٹی اٹارنی جنرل محمد اقبال مہمند بھی عدالتی بینچ کے سامنے پیش ہوئے۔

زونگ کمپنی کے قانونی شعبے کے سربراہ وقار احمد نے کہا کہ پاکستانی اور افغان کمپنیوں کے درمیان رومنگ کے معاہدوں کو پی ٹی اےپیشگی منظوری دے چکی ہے، اور اگر عدالت حکم دے تو وہ فوراً یہ سہولت بند کردیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی کمپنی پی ٹی اے کی طرف سے دیے گئے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر کی پیروی کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کمپنیوں کا ایک اجلاس وزارت داخلہ کے ساتھ بدھ کو ہوگا، جہاں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ سم کارڈز کی رجسٹریشن کے طریقہ کار کو یقینی طور پر قابل بھروسہ کس طرح بنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس طریقہ کار کو بہتر بنانے کے لیے کمپنیاں ایک بایو میٹرک سسٹم متعارف کرانے کی منصوبہ بندی کرچکی ہیں، جس کے تحت ایک سم کارڈ کو صرف صارف کے انگوٹھے کے ذریعے تصدیق کرنے کے بعد ہی ایکٹیویٹ کیا جاسکے گا۔

کارٹون

کارٹون : 24 دسمبر 2024
کارٹون : 23 دسمبر 2024