'اس صدی کی 'گرینڈ سیل
حکومت کی جانب سے اعلان کردہ پرائیویٹائزیشن پلان نے مارکیٹ میں مثبت تحریک پیدا کردی ہے، بڑے بڑے بزنس گروپ اس گرینڈ سیل میں حصّہ لینے لینے کیلئے بے چین ہیں-
تاہم، ماہرین اس عمل کے حجم اور رفتار کی طرف سے تھوڑے فکرمند ہیں، جیسا کہ ان کا ماننا ہے کے انتظامیہ میں صلاحیت اور اعتماد کا فقدان ہے-
فروخت کے لئے پیش کیے جانے والے اداروں کی فہرست میں ریگولیٹری تنظیموں کی شمولیت کو غیر منطقی اور غلط تصور کیا جاتا ہے-
معیشت کی گاڑی کو دھکا سٹارٹ دینے اور آئی ایم ایف کی شرایط کو پورا کر کے ایکسٹینڈیڈ فنڈز فیسیلٹی کی چھ عشاریہ چھ بلین ڈالرز کی دوسری قسط حاصل کرنے کے لئے، وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے اکتوبر کے اوائل میں ایک بڑے پرائیویٹائزیشن ایجنڈا کا اعلان کیا-
پرائیویٹائزیشن کمیشن آف پاکستان کو یہ تاکید کی گئی کہ اکتیس پبلک سیکٹر اداروں کی فروخت کا عمل ابتدائی اور ثانوی عوامی پیشکش کے ذریعہ فوری شروع کیا جاۓ- حکومت ان مخدوش پبلک کمپنیوں کے چھبیس فیصد شیئرز اور انتظامی کنٹرول پرائیویٹ سیکٹر کو منتقل کر کے انھیں دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کی توقع کر رہی ہے-
ابتدائی جائزے کے مطابق، فروخت کے لئے رکھے گۓ تمام اثاثوں کی مجموعی مالیت کم از کم ڈیڑھ ٹریلین روپے ہے-
گزشتہ دنوں میڈیا رپورٹ کے مطابق، عوامی اثاثوں کی مجموعی مالیت کراچی اسٹاک ایکسچینج 100 انڈیکس کی قیمت کے ایک تہائی کے برابر ہے-
سابق فنانس منسٹر، ڈاکٹر حفیظ پاشا، ازراہ مذاق اسے صدی کی سب سے بڑی 'سیل' کہتے ہیں-
ڈاکٹر پاشا نے ڈان کو بتایا کہ سنہ انیس سو نوے کے اوائل میں ہونے والی آخری پرائیویٹائزیشن میں بینکنگ، توانائی، ٹیلی کمیونیکشن اور انڈسٹری میں چار سو چھہتر بلین روپے کے عوامی اثاثے ختم کر دیے گۓ تھے- مجوزہ پروگرام اپنے حجم کے لحاظ سے کئی گنا بڑا ہے-
"مجھے ملک کے اقتصادی میٹرکس پر اثر انداز ہونے والے نتائج پر غور کیے بغیر اپنے دائیں، بائیں اور مرکز میں موجود تمام چیزوں کی فروخت کی کوئی فوری ضرورت نظر نہیں آتی- مخدوش اور بیمار اداروں کی فروخت اور تعمیر نو سمجھ میں آتی ہے لیکن 'او جی ڈی سی ایل' جیسے اداروں کو اس اسٹیج پر فروخت کرنا مناسب نہیں، جب وہ دنیا کی سو کامیاب ترین اداروں کی فہرست میں سے ہیں- یہ ادارہ حکومت کو سالانہ منافع میں اڑسٹھ ارب روپے ادا کرتا ہے، یہ سب ختم ہو جاۓ گا"، ڈاکٹر پاشا نے کہا-
"میرے خیال سے یہ فہرست جلد بازی میں ترتیب دی گئی ہے- کسی ٹرسٹ کی پرائیویٹائزیشن کا کوئی حکومت تصور بھی نہیں کر سکتی".
نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ (این آئی ٹی) اور کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کی طرف اشارہ دیتے ہوۓ انہوں نے کہا؛ "اگر پرائیویٹ سیکٹر ہی کو معیشت سنبھالنے کی ذمہ داری دے دی جاۓ تو ہمیں گورنمنٹ کی ضرورت ہی کیا ہے؟"
ڈاکٹر پاشا کی نظر میں، پرائیویٹائزیشن پلان میں حکومتی رکھوالوں (واچ ڈاگز) جیسے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی شمولیت 'احمقانہ' ہے-
ان کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کے دباؤ کے علاوہ یہ پرائیویٹائزیشن پروگرام اس لئے بھی تشکیل دیا گیا ہے تاکہ وزیر اعظم نواز شریف کے علامتی بڑے انفراسٹرکچر والے منصوبوں کے لئے فنڈز مہیا ہو سکیں- ان کے مطابق پہلے فیز میں تیل اور گیس کی کمپنیوں کی شمولیت شاید غیر ملکی سرمایہ داروں کو راغب کرنے کے لئے کی گئی ہے- انہوں نے کہا کہ پاکستان ریلوے پرائیویٹائز نہیں ہو سکتی اور ہونی بھی نہیں چاہیے-
فاروق رحمت اللہ، ایک بہترین ٹیکنوکریٹ جنہوں نے ایک ملٹی نیشنل آئل کمپنی سے ریٹائرمنٹ کے بعد او جی ڈی سی ایل اور سی اے اے کی سربراہی کی، پرائیویٹائزیشن کی حمایت کرتے ہیں لیکن صرف اسی صورت میں کہ یہ عمل شفاف ہو اور قوائد کی پابندی کی جاۓ-
"ہمیں بزنس چلانے کے لئے پرائیویٹ سیکٹر کو شامل کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ بیوروکریٹس اس کام کے لئے مناسب نہیں- حتیٰ کے اچھے افسران بھی رسک لینے سے گھبراتے ہیں اور جدت سے دور بھاگتے ہیں- آج کے جدید دور میں بھلا ایک بزنس کیسے کامیاب ہو سکتا ہے اگر وہ مارکیٹ کے موافق ہونے میں ناکام رہے اور مقابلے کے لئے خود کو تیار نہ کر پاۓ- ہاں، او جی ڈی سی ایل منافع کماتا ہے، لیکن تنظیم نو کے ساتھ، یہ منافع کئی گنا بڑھ سکتا ہے"، انہوں نے فون پر اپنی راۓ دی-
میں اس حوالے سے پراعتماد ہوں کہ اسکو اپنی پوری گنجائش کے لحاظ سے کام کرنے دیا جاۓ تو جتنا منافع آج یہ حکومت کو دے رہا ہے اس کے مقابلے میں چھبیس فیصد ڈیوسٹمنٹ (اثاثے کی فروخت) کے ساتھ او جی ڈی سی ایل حکومت کے لئے کہیں زیادہ منافع لاۓ گا-
چیئرمین آف بورڈ آف انویسٹمنٹ، محمّد زبیر، اس منصوبے کا دفاع کرتے ہوۓ کہتے ہیں، "ہم چاہتے ہیں کہ ادارے کچھ کارکردگی دکھائیں اور اس کے لئے پرائیویٹائزیشن ضروری ہے- نظام بالکل ناکارہ ہو کر رہ گیا ہے- صرف مارکیٹ ہی اسکو دوبارہ صاف و شفاف اور حرکت میں لا سکتی ہے"- انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار اسلام آباد سے فون پر کیا-
کراچی کے کاروباری حضرات کا تاثر تھوڑا محتاط تھا- کچھ کو اس بات کا ڈر ہے کہ مسلم لیگ نون کی قیادت کے اطراف میں موجود بڑے تاجر، ممکن ہے ان کے کاروبار کے پھیلنے کا موقع اڑا لے جائیں-
"اگر پرائیویٹائزیشن کے نتیجے میں ملکی دولت مزید چند ہاتھوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی تو اس سے نہ ملک کو کوئی فائدہ ہوگا اور نا ہی اس کی معیشت کو- یہ مارکیٹ کی شکل بگاڑ دے گا، کیونکہ اشرافیہ کلب مارکیٹ میں اپنا کھیل کھیلے گا اور درمیانی اور چھوٹے بزنس مین دیوار سے لگ کر رہ جائیں گے"، ایک بزنس لیڈر نے اپنے خدشات کا اظہار کیا-
لیکن ایف پی سی سی آئی کے سابقہ صدر، چودھری محمّد سعید، ان تمام خدشات کو مسترد کرتے ہیں- "یہ بڑے بڑے سرکاری کارپوریشن بد عنوانی اور سر پرستی کے گڑھ بن گۓ ہیں- یہ عوامی وسائل کا ایک بڑا حصّہ کھا جاتے ہیں- پاکستان کے بینکوں اور ٹیلی فون کمپنیوں کو دیکھیں، پرائیویٹائزیشن کے بعد یہ بہتر ہو گئیں"، انہوں نے اپنی راۓ کا اظہار میرپور آزاد کشمیر سے فون پر کیا-
سٹینڈرڈ چارٹرڈ کے عالم معاشیات اور ترجمان، سائم علی، نے ڈان کو بتایا کہ پرائیویٹائزیشن پلان سے مارکیٹ میں مزید توانائی آگئی ہے، "معیشت کو ایک زور دار دھکے کی ضرورت ہے تاکہ وہ رفتار پکڑ سکے- مارکیٹ کو اس بات کی امید ہے کہ پرائیویٹائزیشن پروگرام سے وہ انجن رواں ہو جاۓ گا جس سے معیشت کو توانائی ملتی ہے"، انہوں نے مصنف کو بتایا-
ترجمہ: ناہید اسرار