تنازعہ کشمیر پر امریکی پالیسی میں کوئی ردّوبدل نہیں

شائع October 22, 2013

22-10-13-white house 670
وہائٹ ہاؤس، واشنگٹن، امریکہ۔ —. فائل فوٹو

واشنگٹن: امریکا نے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کی اس تجویز کو مسترد کردیا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کشمیر ایک بین الاقوامی تنازعہ ہے، اور ان پر زور دیا ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے ہندوستان سے رابطے میں رہیں۔

بدھ کے روز ہونے والی امریکی صدر بارک اوبامہ کے ساتھ نواز شریف کی ملاقات کا جائزہ لیتے ہوئے سینئر انتظامی اہلکاروں نے تسلیم کیا کہ پاکستان اور امریکا فاٹا میں ڈرون حملوں پر تبادلۂ خیال کرچکے ہیں اور اس کو جاری رکھیں گے، لیکن یہ بڑے سیکیورٹی معاملے کا صرف ایک حصہ ہے۔

ان میں سے ایک اہلکار نے میڈیا بریفنگ میں کہا کہ کشمیر کے معاملے پر ہماری پالیسی میں ذرا بھی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔

کشمیر کے حوالے سے امریکا کے روایتی مؤقف کو دہراتے ہوئے مذکورہ اہلکار نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کو چاہئیے تھا کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر اپنے مذاکرات میں کردار، امن اور گنجائش کاتعین کرتے۔

لندن میں اتوار کے روز اپنے عارضی قیام کے دوران نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ امریکا کشمیر کے تنازعے کے حل کے لیے مداخلت کرے۔

امریکی اہلکار نے کہا کہ اوبامہ اور نواز شریف کی ملاقات میں دوطرفہ تعلقات کے ساتھ توانائی اور دہشت گردی کے معاملات  پر توجہ مرکوز رہے گی، پاکستان کے انڈیا اور افغانستان کےساتھ تعلقات بھی اس بات چیت میں زیرغور آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایک مضبوط اور خودمختار افغانستان کے لیے اپنی حمایت جاری رکھیں گے۔ اس نکتے پر بھی بحث ہوگی کہ پاکستان 2014ء کے بعد افغانستان کو کیسے دیکھتا ہے۔ امریکا افغانستان میں ہونے والی حالیہ پیش رفت پر پاکستان کا نکتہ نظر جاننا چاہتا ہے اور کیا وہ 2014ء کے بعد نیٹو کی افغانستان میں موجودگی کو پسند کرے گا۔

پاکستان کے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ بھی کئی موڑ پر سامنے آئے گا۔ پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کو آگے بڑھانے میں دونوں اطراف سے اُٹھائے گئے اقدامات پر ہماری جانب سے حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے معاملے کو حل کرنے کے لیے اُٹھائے گئے اقدامات کی امریکی انتظامیہ کی طرف سے حمایت کی گئی تھی۔

مشترکہ دشمن:

انہوں نے کہا کہ ہمیں توقع ہے کہ دہشت گردی کے نیٹ ورک کے خلاف ہماری کوششوں میں اضافے کو وزیراعظم نواز شریف پسند کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سیکیورٹی کا معاملہ اور دہشت گردی کے خلاف تعاون پاکستان کے ساتھ جاری اسٹریٹیجک ڈائیلاگ کا ایک حصہ بن جائے گا۔

ہمیں اس امتیاز کو دور کرنے کے لیے ایک ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ انسدادِ دہشت گردی کے آپریشن میں وہ مددکرنے اور منظم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ہم پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔

یہ واضح ہے کہ دونوں ممالک مشترکہ دشمن اور متشدد انتہاپسندوں کے مسئلے میں ایک مشترکہ مقصد رکھتے ہیں۔پاکستان کو دہشت گردوں کے ہاتھوں نقصان اُٹھا چکا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک مشترکہ اور مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔

یہ سوال کہ دہشت گردی کو کس طرح مختلف زاویے سے دیکھا جاتا ہے، یقینی طور پر امریکا کے روایتی خدشات اور اس نکتہ نظر میں اختلافات تھے، تاریخی طور پر امریکا کو القاعدہ کے حوالے سے تشویش تھی، کابل کو حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان، اسلام آباد کو پاکستانی طالبان اور بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے حوالے سے تشویش ہے۔

ان کی ترجیحات کیا ہیں؟ یہ ہم ان سے سننا چاہتے ہیں اور خاص طور پر ایران پائپ لائن پر بات کی جائے گی۔ اس معاملے پر ہماری پوزیشن کئی سالوں سے بالکل واضح ہے۔ پاکستان کو توانائی سے نمٹنے کے لیے امریکا کئی راستوں سے مدد کررہا ہے۔

تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات:

یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ ہم وزیراعظم کی زبانی جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے منصوبے کیا ہیں، اس مصالحتی عمل کے مکمل ہونے کا مقررہ وقت کیا ہے، لیکن دہشت گردی سے مقابلہ کرنے اور اس کے خاتمے کے لیے ہم جو کچھ کررہے ہیں اور پاکستان کو مزید مستحکم اور خوشحال بنانے کے لیے ہمارا کردار مجموعی طور پر اس بحث کا حصہ ہوگا۔

اوبامہ انتظامیہ کے سینیئر اہلکاروں نے کہا کہ متشدد انتہا پسندی سے نمٹنے پر توجہ مرکوز ہونے کے باوجود امریکا پاکستان کی معاشی ترقی میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نجی شعبے میں ترقی کے لیے مسلسل مصروف عمل ہیں، اقتصادی تعلقات  کے مرکزی حصے میں اور توانائی کے روایتی طریقوں سے باہر نکل کر پیش رفت ہوگی۔

امریکی اہلکار نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات امریکی زاویہ نظر کے حساب سے ایک نہایت حقیقی اور عملی شراکت داری پر مبنی ہیں، جس میں عوامی مفادات پر توجہ مرکوز رہے گی۔ مذاکرات کے دوران پاکستان کی اقتصادی ترقی امریکی اور پاکستانی ٹیم کے درمیان مباحثے کا مرکزی نکتہ ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ اس دورے میں اقتصادی اور توانائی کے حوالے سے بہت سے حصوں میں پیش رفت پر توجہ مرکوز رہے گی، سیکیورٹی کے معاملے پر بحث سے ہٹ کر یہ معاملات بذات خود نہایت اہم ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024