آئیں ایک نیا آئین بنائیں
میرا خیال ہے کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ملک کو ایک نیا آئین دیا جائے۔ اس لئے نہیں کہ پاکستان کے "لے پالک بچّے" یعنی بلوچ موجودہ ملکی آئین سے مطمئن نہیں بلکہ نیا آئین بنانا اس لئے ضروری ہو گیا ہے کہ ہمارے "اپنے بچے" یعنی طالبان پاکستان کے موجودہ "غیر اسلامی اور غیر شرعی آئین" کو ماننے پر تیار نہیں تبھی تو حکومت سے مذاکرات پر آمادہ نہیں ہو رہے۔
حکومت تو اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے کہ کسی طرح منت سماجت کرکے اپنے ان بگڑے بچوں کو بات چیت پر آمادہ کرلے لیکن لگتا ہے کہ ناز و نعم میں پلنے والے یہ بچے کچھ زیادہ ہی سرکشی پر اتر آئے ہیں اس لئے وہ کسی چھوٹے موٹے کھلونے سے بہلنے اور ٹلنے والے نہیں.
یہی وجہ ہے کہ آئے دن کچھ نہ کچھ توڑ پھوڑ کر وہ اپنا غصہ اتارتے رہتے ہیں ۔ لیکن چونکہ حکومت کی پہلی اور واحد ترجیح یہی ہے کہ تمام تر نقصانات کے باوجود مذاکرات کا جلد سے جلد آغاز ہو اس لئے عوام کی دعا ہے کہ حکومت کی یہ پر خلوص کوششیں بھی جلد از جلد کامیاب ہوں تاکہ پورا خطہ امن وسکون کی سانس لے سکے ۔
مانا کہ کئی سالوں کے لاڑ پیار کی وجہ سے ہمارے یہ بچے کچھ بگڑ سے گئے ہیں لیکن ایسا بھی تو نہیں ہو سکتا کہ ہم اپنے ان ہی جگر گوشوں سے سختی کے ساتھ پیش آئیں جنہیں ہم نے بڑی محنت سے پال پوس کر جوان کیا ہے۔ اس لئے اگر وہ ہمارے آئین کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں تو ہمیں ہی ان سے تعلقات بہتر بنانے اور انہیں رام کرنے کی راہیں تلاش کرنی ہونگیں۔
اس نیک مقصد کے حصول کی خاطر مناسب ہوگا کہ ان کی اس معمولی شکایت کا ازالہ کرنے اور مذاکرات کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کی خاطر جلد ہی ایک ایسا آئین تشکیل دیا جائے جو ان کے لئے قابل قبول ہو۔ بلکہ اگر اس آئین کی تیاری کا سارا کام ہی انہی کے سپرد کیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔
اس طرح نہ صرف بعد میں وہ اس آئین کی کسی شق پر اعتراض نہیں کریں گے بلکہ مذاکرات میں کسی تعطل کا خدشہ بھی نہیں رہے گا۔ اگرچہ سب کو اس بات کا یقین ہے کہ طالبان بھائیوں نے کئی سال قبل ہی اپنا کوئی من پسند اور متبرک آئین تیار کرکے رکھا ہوگا تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ پھر بھی امید ہے کہ اگر ہیوی مینڈیٹ والی حکومت مندرجہ ذیل تجاویز اپنی آئینی سفارشات میں شامل کرلے تو اس سے نہ صرف دونوں فریقوں میں اعتماد کی فضا بحال ہو سکتی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں بننے والی آئینی دستاویزسے مذاکرات کی کامیابی کی راہ بھی ہموار ہوسکتی ہے۔
1- سنا ہے کہ طالبان بھائی ملک کا نیا سرکاری نام 'امارات اسلامی پاکستان' رکھنا چاہ رہے ہیں، اگر یہ نام "دولة الإمارات الباکستانیة المتحدة الاسلامیہ" ہو تو نہ صرف شرعی لحاظ سے یہ ایک مبارک نام ہوگا بلکہ اس مقدّس اور متبرّک نام کے زبان پر آتے ہی انسان کے سارے گناہ خود بخود دھل جائیں گے۔
2- اسلام سے منسوب اسلام آباد اور سعودی عرب کے سابق فرمانروا خادم اسلام، شاہ فیصل کے نام سے منسوب فیصل آباد کے سوا امارات کے تمام شہروں کے غیر اسلامی ناموں کو تبدیل کرکے ان کے ایسے نام رکھے جائیں جو شریعت سے مکمل مطابقت رکھتے ہوں۔
3- موجودہ چاروں صوبوں کے نام چونکہ علاقائی اور لسانی تعصبات کی نشاندہی کرتے ہیں اور اسلام کی تعلیمات کے یکسرخلاف ہیں اس لئے ان کو کالعدم قرار دے کر ان چاروں صوبوں کے نام بھی مقدس ہستیوں کے ناموں پر رکھے جاسکتے ہیں۔
4- چونکہ اسلام کی کوئی سرحد نہیں اس لئے امارات کی سرحدیں تمام دنیا کے مسلمانوں خصوصاَ جہادیوں کے لئے مکمل کھول دینی چاہئے البتہ اس مقدس سرزمین کو ناپاکی سے محفوظ رکھنے کی خاطر ضروری ہے کہ یہاں غیر مسلموں کے داخلے پر مکمل پاپندی ہو۔
5- بجلی سمیت سائنس کے نام پر ہونے والی تمام غیر اسلامی اور غیر شرعی ایجادات --جو دراصل دجال کی نشانیاں ہیں-- کے استعمال کو بدعت قراردے کر ان کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے اور عوام کو شریعت کے مطابق انتہائی سادہ زندگی گزارنے کا پابند کیا جائے۔
اس مقصد کے حصول کی خاطر لازمی ہے کہ آئین میں ایسی شقوں کا اضافہ کیا جائے جن کی رو سے ہر قسم کی گاڑیوں، سائکلوں اور موٹر سائکلوں کے علاوہ ریل گاڑی اور جہاز کے استعمال پر مکمل پابندی ہو جبکہ آمدورفت اور نقل و حمل کے لئے صرف اونٹوں، گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کا ہی استعمال کیا جائے۔
6- صحت کے شعبے میں ہونے والی ایجادات اور دواؤں کی آڑ میں چونکہ یہودی اور دیگر کافر قوتیں مسلمانوں کی نئی نسل کو مردانہ کمزوری اور بانجھ پن میں مبتلا کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں اس لئے آئین کی رو سے ان مشینوں اور ادویات کے استعمال کی مکمل ممانعت ہونی چاہئے جبکہ پولیو کے قطروں کی طرح ہر قسم کی انگریزی ادویات استعمال کرنے اور کرانے والوں کے لئے ستّرکوڑوں کی سزا مقرر کی جائے۔
7-عوام کے بہتر اور شرعی علاج معالجے کی خاطر پورے امارات میں طب اسلامی کو ہی بطور واحد طریقہ علاج استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ نیز دم درود اور تعویز گنڈے کرنے والوں کو خصوصی مراعات دی جائیں اور ان کا باقاعدہ وظیفہ مقرر کیا جائے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ اس شعبے کی طرف راغب ہوں۔
8- بعض امراض کا تعلق کیوں کہ براہ راست جن بھوتوں چڑیلوں اور ارواحِ خبیثہ سے ہے اس لئے ایسے تمام امراض کے علاج کی خاطر عاملوں کی خصوصی حوصلہ افزائی کی جائے اور اس مقصد کے حصول کے لئے امارات بھر میں خصوصی اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں اس علم کے شوقین افراد کو ماہرین کی زیر نگرانی جنات اور بھوتوں سے لڑنے اور انہیں قابو کرنے کے تمام جدید گرسکھائے جاسکیں۔
9- پرتعیش اور پکے گھروں میں رہنے پر مکمل پابندی ہو اور امیرالمومنین سے لیکر ایک عام آدمی تک اس بات کا پابند ہو کہ وہ کچے مکانوں یا خیموں میں رہیں گے، سادہ غذا استعمال کریں گے اور سادہ لباس پہنیں گے۔
10- آئین کی رو سے تمام مردوں کے سروں پر ٹوپی، پگڑی یا عمامہ ہونا اور شلوار کے پائنچے ٹخنوں سے اوپر ہونا لازمی قرار دیا جائے۔ کسی بھی غیر اسلامی اور غیر شرعی لباس کے پہننے پر مکمل پابندی ہو اور خلاف ورزی کرنے والے کو سرعام ستّر کوڑے مارے جائیں۔
11- مردوں کی داڑھی، عورتوں کے حجاب اور غیر مسلموں اور کافروں کے بارے میں طالبان بھائیوں کے خیالات چونکہ پوری طرح واضح ہیں اس لئے ان پر رائے زنی کی ضرورت نہیں البتہ بم بنانے اور خود کش جیکٹوں کی سلائی کی تربیت دے کر خواتین کو گھر بیٹھے باعزت روزگار مہیا کیا جا سکتا ہے۔
12- غیر مسلموں اور کافروں کی عبادت گاہوں کو مقامی تیار شدہ بموں کے زریعے تباہ کرکے ان کی جگہ مسلمانوں کے لئے مساجد بنائی جائیں جبکہ سکولوں کو بارود کے زریعے مسمار کرکے ان کی جگہ مدرسے تعمیر کئے جائیں۔
13- زیادہ تر کھیل کود چونکہ غیر مسلموں نے ایجاد کئے ہیں اور انہیں کھیلتے وقت ستر پوشی کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا اس لئے ان سب کھیلوں پر پابندی عائد ہونی چاہئے جبکہ کشتی، پہلوانی، نیزہ بازی اور تیر اندازی جیسے کھیلوں کی ہر ممکن سرپرستی کی جائے بشرطیکہ یہ کھیل بھی مکمل سترپوشی کے ساتھ انجام دئے جائیں۔
14- اونٹ دوڑ چونکہ کئی برادر اسلامی ملکوں کے عوام اور ان کے حکمرانوں کا پسندیدہ کھیل ہے اس لئے یقین کیا جانا چاہئے کہ یہ ایک مکمل اسلامی اور شرعی کھیل ہوگا اس لئے اسے دولة الإمارات الباکستانیة المتحدة الاسلامیہ کا قومی کھیل قرار دیا جائے.
ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھی جائے کہ ان اونٹوں پر سواری کے لئے صرف غیر مسلموں اورکافروں کے بچوں کا ہی انتخاب کیا جائے تاکہ اگر اس شرعی کھیل کے دوران وہ اونٹوں کے پاؤں تلے آکرکچلے بھی جائیں تو قیامت کے دن ان کی معافی تلافی کی گنجائش موجود ہو۔
15- نئے آئین کی رو سے ٹیلی ویژن سمیت تمام زرائع ابلاغ پر مکمل پابندی عائد ہو لیکن ہر شخص کے لئے کسی اسلامی ملک کا بنایا ہوا ایک ایسا حلال ریڈیو ساتھ رکھنا لازمی قرار دیا جائے جو کسی مسلمان موجد کے ایجاد کردہ حلال بیٹری سیل سے چلتا ہو اور جس پر صرف ایف ایم کی حلال نشریات ہی سنائی دیتی ہوں تاکہ عوام علماء کے نت نئے فتووں سے ہمیشہ باخبر رہیں۔
اسی طرح ٹیلی فون اور وائرلیس کے استعمال کو بھی ممنوع قرار دیا جائے اور پیغام رسانی کے لئے کبوتروں کی تربیت کے خصوصی مراکز قائم کئے جائیں۔
16- چھٹی کے لئے جمعہ کا دن مخصوص کیا جائے اور اس دن کو عوام کے لئے دلچسپ بنانے کی خاطر بعد از نماز جمعہ ایسے بڑے اجتماعات کا انعقاد کیا جائے جن میں شریعت سے رو گردانی کرنے والوں کو سرعام کوڑے مارکر اورمخالفین کو ذبح کرکے عوام کو با مقصد تفریح مہیا کی جائے۔
17- عید الاضحی پر جانوروں کے علاوہ غیر مسلموں اور کافروں کی قربانی کو بھی قانونی اور جائز قرار دیا جائے تاکہ غریب غرباء جو جانوروں کی خریداری کی سکت نہیں رکھتے وہ بھی اس رسم کو بھرپور طریقے سے ادا کر سکیں۔
مزکورہ آئین کی تیاری اور مذاکرات کی کامیابی کے لئے اگر عمران خان اور منور حسن کی خدمات بھی حاصل کی جائیں تو بے جا نہ ہوگا کیوں کہ یہ دونوں حضرات طالبان کے بیانات کی جس خوبصورتی سے پروف ریڈنگ اور تشریح کرتے ہیں اسے سن کر خود طالبان بھائی بھی حیران رہ جاتے ہوں گے --اپنی ان خدمات کے صلے میں وہ مستقبل میں طالبان کے بہترین مشیر اور ترجمان ثابت ہو سکتے ہیں--۔
اب جبکہ طالبان نے پاکستان کے موجودہ آئین کو تسلیم کرنے سے صاف صاف انکار کرکے اپنا موقف واضح کردیا ہےاس لئے اب گیند حکومت کی کورٹ میں ہے۔ اگرحکومت طالبان کو ان کی پسند کا شرعی آئین دیدے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے ملک میں بھی قبرستان جیسا مثالی امن قائم نہ ہو۔
اس لئے آئیں ایک نیا آئین بنائیں...
تبصرے (4) بند ہیں