ایک پرعزم جنرل کی کہانی
پچھلے جمعہ جنرل وونگوین گیاپ کی 102 سال کی عمر میں موت نے تاریخ کا ایک باب بند کردیا جس نے نہ صرف ویت نام کی قسمت کا فیصلہ کیا تھا بلکہ جس کی گونج دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی سنائی دی تھی-
سنہ 1954 میں ڈائن بائن پھوکی جنگ میں جنرل گیاپ کی وہ حکمت عملی جس نے نہ صرف فرانسیسی استعمار کی نوآبادیاتی امنگوں کو زبردست دھچکا پہنچایا تھا بلکہ تیسری دنیا کی استعمار کی مخالف قوتوں کو استحکام بخشا تھا- بلکہ کئی تاریخ دان تو یہاں تک کہتے ہیں کہ انہوں نے دنیا بھر میں مغربی ممالک کی نوآبادیاتی امنگوں کو موت کی نیند سلا دیا-
دو دہائیوں پہلے انہوں نے اپنے کارناموں میں ایک اور اضافہ کیا جو یہ تھا کہ امریکی فوج کی بے پناہ قوت کو شکست دینے والے پہلے کمانڈر کا اعزاز ان کو حاصل ہوا-
اس کارنامہ کی بلا شک و شبہ آجتک دوسری نظیر نہیں ہے اور اپنے عروج کے زمانے میں ویت نام کے عزم کی پہچان ہوچی منہ کے بعد دوسرا انہی کو سمجھا جاتا تھا- مثال کے طور پر 1967 میں وہ اکیلا شخص تھا جسے ایک امریکی ہواباز پہچانتا تھا- جس کا جہاز گرا لیا گیا تھا اورجسے ویت نامی شہریوں نے جھیل میں ڈوبنے سے بچایا تھا-
"وہ صرف چند لمحے وہاں ٹہرا مجھے دیر تک دیکھتا رہا اور بغیر کچھ کہے رخصت ہو گیا" جان مکین تیس سال کے بعد اپنے ایک مضمون میں اس واقعے کو یاد کرتے ہیں جو وال اسٹریٹ جرنل میں اسی ہفتے شایع ہوا ہے- اس واقعہ کے تیس سال بعد ایک سنیٹر کے طور پر انہوں نے جنرل گیاپ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی- "ہم دونوں نے ایک دوسرے کے کندھے گرم جوشی سے دبائے جیسے کہ دشمنوں کی جگہ دو پرانے دوست بہت عرصے کے بعد ملے ہوں"- وہ اپنے مضمون میں یاد کرتے ہیں-
مکین کے بیان کے مطابق گیاپ اپنے پرانے فوجی کارناموں کے ذکر کے مقابلے میں امریکہ اور ویتنام کے دوستانہ تعلقات کے بارے میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا- " تم ایک باوقار دشمن تھے" جدا ہوتے وقت امریکہ کے آئیندہ صدارتی امیدوار سے یہ ان کے آخری الفاظ تھے"اس کا مطلب جو بھی ہو مگر ان کے جذبات کی میں قدر کرتا ہوں" مکین اس لمحے کو یاد کر کے کہتے ہیں-
گیاپ سنہ 1911 میں ویتنام میں پیدا ہوئے تھے جہاں اس وقت تک فرانس کی حکومت تھی- گیاپ کی نوجوانی کے زمانے کا ماحول نوآبادیاتی مخالف جذبات کا تھا- انہوں نے فوج کا پہلا فیتہ ایک نوجوان قیدی کے طور پر حاصل کیا- جیل سے رہا ہو کر قانون اور سیاسی معاشیات کی ڈگری حاصل کی، ایک جرنلسٹ اور اسکول ٹیچر کے طور پر کام کیا --- ان کے طلباء نپولین کی فوجی حکمت عملی اور رابیس پئیر کی سیاسی چالوں پر ان کے تبصروں کے دیوانے تھے --- جہاں وہ ہوچی منہ سے پہلی مرتبہ ملے، چین جانے سے پہلے-
سنہ 1940 کی دہائی کے اوائل میں وہ ویت منہ کے انچارج بن چکے تھے جو شروع میں ایک چھوٹا موٹا جتھا تھا جو ویت نام کو جاپان اور فرانس دونوں کے تسلط سے نجات دلانے کا خواہشمند تھا- فرانس 1945 کے بعد اتنا طاقتور ہوچکا تھا کہ جاپان کی شکست کے بعد ہنوئی پرقبضہ کرنے کے لئے تیار تھا-
فرانس نے ہوچی منہ کی حکومت کو تسلیم کر لیا تھا لیکن انڈوچائنا پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتا تھا- حالانکہ فرینکلن روزویلٹ کے دور میں امریکہ نے اپنے دوسری عالمی جنگ کے اتحادیوں سے نوآبادیوں کی آزادی کی بات بھی کی تھی --- اور یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ جتنی بھی فوجی ٹریننگ گیاپ کو ملی وہ ( OSS) او ایس ایس ہی سے ملی جو کہ ( CIA) سی آئی اے کا ایک پیش رو ادارہ تھا-
اگست 1945 میں روزویلٹ کی موت واقع ہو گئی اور ان کی جگہ ہیری ٹرومین صدر بنے جن کی کمیونزم دشمنی مثالی اور ہر شے سے بڑھ کر تھی- لہٰذا ویتنام کو فرانس کی نوآبادی کے طور پر امریکہ کی مضبوط حمایت حاصل ہوگئی-
مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ویت منہ چین میں ماؤزے دونگ کی فوجوں کے ساتھ مضبوطی سے جڑ گئی اور ماسکو میں جوزف اسٹالین کی حکومت سے مل گئی- یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے، خصوصاً اس تناظر میں کہ اگرچہ کہ لینینزم اور مارکسزم ہوچی منہ کا طرز زندگی تھا اور وہ اس کے ہر پہلو سے اچھی طرح آشنا تھے لیکن سنہ 1945 میں ہنوئی میں اپنے صدارتی خطاب کے موقع پر کمیونسٹ مینی فیسٹو کے بجائے امریکہ کے اعلان آزادی (American Declaration of Independence) کے انداز میں تقریر کی-
ایک سال بعد، انہوں نے فرانسیسیوں سے کہا "اگر ہمیں لڑنا پڑا، تو ہم لڑینگے- تم ہمارے دس آدمیوں کو مارو گے اور ہم تمہارے ایک آدمی کو مارینگے تو بھی، آخرمیں تم تھک جاؤ گے" ان کا یہی رویہ جو کہ موقع محل کی مناسبت سے تھا امریکی جارحیت کے خلاف مزاحمت کے دوران بھی تھا-
گیاپ کے خلاف ان کے ناقدین اکثر یہی سخت الزام لگاتے ہیں کہ وہ لاتعداد زندگیوں کی قربانی دینے کے لئے تیار رہتے تھے جو ان کے دشمنوں کے لئے غیرمعقول حد تک ناقابل برداشت ہوتی تھی-
وہ یہ حقیقت اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ امریکیوں یا فرانسیسیوں کے برخلاف ویتنامی اپنے وطن کی آزادی کی خاطر ایک جدوجہد کے دور سے گزر رہے تھے- اور یہ کہ ان کا مقابلہ ناقابل بیان حد تک طاقتور دشمن اور اس کے بہتر ہتھیاروں سے تھا- تیس لاکھ سے زیادہ ویت نامی جو اس امریکی جنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوئے، ان کی ایک بہت بڑی تعداد اس بے تحاشہ امریکی بمباری اور کیمیائی ہتھیاروں کا نشانہ بنی-
(Volcano Under Fire) میں جو گیاپ کے فوجی کارناموں کی زہریلے تعصّب سے بھری ہوئی کہانی ہے جوسابق برطانوی سفارت کار جان کالوین کی تصنیف ہے- وہ امریکہ اور فرانس کی شکست کی توجیح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیونکہ وہ جمہوریتیں تھیں اور اپنے عوام کی رائے عامہ کے سامنے جواب دہ، گیاپ اور اس کے کامریڈوں کے برخلاف- یہ صرف آدھا سچ ہے-
مثلاً، اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے، کہ 1968کا ٹیٹ پر حملہ شمالی اور جنوبی ویتنام کی نیشنل لبریشن فرنٹ کیلئے ایک تباہ کن فوجی ناکامی تھی لیکن امریکن ایمبیسی اور سائیگان میں صدارتی محل میں کمیونسٹوں کی توڑ پھوڑ امریکی عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئی کہ ان کے سیاسی لیڈر ان سے جھوٹ بول رہے ہیں اور اس جنگ کو بلا وجہ طول دے رہے ہیں اور یہ کہ نہ تو یہ جنگ نہ صرف ان کی پہنچ میں نہیں ہے بلکہ وہ یہ جنگ کبھی جیت نہیں سکتے-
گیاپ کو بھی یہ پتہ تھا کہ ان کی فوجی کامیابیاں دوسرے ملکوں کی عوامی رائے عامہ پر کتنی اثر انداز ہوتی ہیں- بلکہ ان کو اپنے ملک میں بھی عوامی حمایت کی ضرورت کا اتنا ہی یقین تھا-
کالوین جیسے لوگ ان حقیقتوں کا ادراک کر ہی نہیں سکتے کہ ویت نام کی آزادی کی جدوجہد کی کامیابی پورے ملک کے طول و عرض میں بنیادی سطح کی عوامی حمایت کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی-
ایک مرتبہ امریکہ کے خلاف یہ جنگ جیتنے کے بعد، گیاپ کا رول ایک امن کے خواہاں شخص کا ہوگیا اور ان کا رویہ عموماً ہنوئی میں اقتدار کے ایوانوں سے مطابقت نہیں رکھتا تھا اس لئے آہستہ آہستہ انہیں کنارے کردیا گیا- لیکن پوری طرح نظرانداز کرنا ممکن نہیں تھا، جو اگلے ہفتے کے اختتام پر عوامی پیمانے پر انکی تجہیز و تکفین کے اعلانات سے ظاہر ہے-
یہاں تک کہ ان کے ناقدین بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ گیاپ اپنی غلطیوں سے فوراً سبق سیکھ کرانہیں کبھی دوہراتے نہیں تھے- کاش کہ امریکنوں کے بارے میں بھی یہی بات کہی جا سکے-
ترجمہ: علی مظفر جعفری