رگڑ سے چارج ہونے والے آلات
چراغ رگڑا اور جن برآمد تو آپ نے سنا ہوگا لیکن اب ماہرین نے ایک ایسا ای ریڈر تیار کرلیا ہے جسے چارج کرنے کیلئے ایک کم خرچ دھاتی پرت ( فوائل) اور ٹیفلون چاہئے ہوتا ہے اور اس سے ای ریڈر باآسانی چارج ہوجاتا ہے۔
ٹیفلون کو مختلف چیزوں میں دو پتلی دھاتی شیٹوں میں رکھنے سے قبل کاغذ پر رگڑ کر اس پر منفی ( نگیٹو) چارج لایا جاتا ہے۔ کیونکہ ٹیفلون وہ مٹیریل ہے جو الیکٹریٹ کہلاتا ہے یعنی یہ برقی چارج رکھتے ہیں اور چارج کی معمولی مقدار کئ برس تک ان پر رہتی ہے۔
اب جب کوئی دھاتی پرت کو رگڑتا یا تھپتھپاتا ہے تو پوزیٹو پرت چارج سے نگیٹو ٹیفلون کی جانب بہنا شروع ہوجاتا ہے۔ یہ پرت تاروں کے ذریعےچلائے جانے والے برقی آلے سے جڑی ہوتی ہے اور اس آلے کو بجلی ملتی رہتی ہے۔ اس کا ایک نمونہ یا پروٹو ٹائپ بنالیا گیا ہے جو 44 میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے ۔ یہ بجلی چند ایل ای ڈی اور ای انک کے ڈسپلے کو چلانے کیلئے بہت کافی ہے۔ اگر فوائل کو ٹیفلون سے براہِ راسٹ رگڑا جائے تب بھی اس سے آلہ چلایا جاسکتا ہے۔
یہ منصوبہ ڈزنی لینڈ ریسرچ کی جانب سے شروع کیا گیا ہے اور اس کے پروجیکٹ لیڈر ایوان پاپیریو کہتے ہیں کہ کاغذی جنریٹر اور چارجرز کا مستقبل بہت روشن ہے کیونکہ یہ نہایت کم خرچ ہیں۔ ' یہ ٹیکنالوجی بہت سستی ہے اور ہم اسے دیواروں، میزوں اور کرسیوں پر چھاپ سکتے ہیں۔ ہم ایسے کاغذ کم خرچ میں چھاپ کر اسے پوری عمارت پر لپیٹ سکتے ہیں جو پاس گزرنے والی ہوا سے بجلی بناسکتا ہو، ' ایوان نے کہا۔
یہ بات طے ہے کہ کاغذی جنریٹر یا چارجر بہت بڑی تعداد میں بجلی تیارنہیں کرسکتے لیکن وہ ایسے آلات کیلئے مناسب ثابت ہوسکتے ہیں جو بہت کم بجلی خرچ کرتے ہیں یا پھر مستقبل میں ایسے کم بجلی خرچ کرنے والے آلات بنالئے جائیں گے مثلاً ای انک والے ڈسپلے اور ایسی سمارٹ گھڑیاں جو کبھی بھی بند نہیں ہوں گی۔
' ایک میگزین کو آن کرنے کیلئے آپ کو اس کے دو صفحے رگڑنا ہوں یا پھر بند ڈجیٹل گھڑی سے وقت معلوم کرنے کیلئے اس کے اسکرین کو رگڑیئے اور وقت دیکھ لیجئے،' پاپیریو نے کہا ۔
اس ایجاد کا ایک پروٹو ٹائپ اسکاٹ لینڈ کے ایک ٹیکنالوجی شو میں پیش کیا جائے گا۔ لیکن توقع ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے دستی آلات میں بجلی کے مسائل پر قابو پانے میں بڑی حد تک مدد ملے گی۔