تھر کہانی ، تصویروں کی زبانی
مون سون کی بارشیں ہوئیں تو پورے تھر کے ریگستان نے سبز چادر اوڑھ لی۔ ہزاروں لوگوں کو تھر کی طرف کھینچا اور وہ سیاحت کے لیے گروپوں کی شکل میں یہاں پہنچے۔ وہ لوگ جو بارش ہونے کے بعد ہریالی دیکھنے جاتے ہیں وہ تھر کے رہائشی کا دکھ نہیں سمجھ سکتے۔ شاداب علاقوں اور شہر کے لوگوں کو تھر تب یاد آتا ہے جب بارش ہوتی ہے۔ تب یہ لوگ قافلے بنا کر پہنچتے ہیں۔
تھر لوک کہانیوں اور گیتوں کی ہی سرزمین نہیں آزمائشوں کا خطہ بھی ہے۔ یہاں ہر شخص کے پاس درد کہانی ہے۔ سندھ کے جنوب مشرق میں واقع قحط، غربت، بدحالی کے شکار اس ریگستان کے لوگ تپتی دھوپ میں برسوں بارش کا انتظار کرتے ہیں۔
دو تین سال کے بعد بارش ہوتی ہے تو تین چار ماہ سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ لیکن ایک بارش سے کام نہیں چلتا، بیس بیس دن کے وقفے سے کم از کم تین بارشیں چاہئیں تب جا کر فصلیں ہوتی ہیں۔ اس سے کم بارش پر ہریالی تو ہو جاتی ہے جو بہت سے لوگوں کی دلچسپی کا باعث بنتی ہے۔
رواں سال بھی ایسا ہی ہوا۔ تھر میں بارشیں دیر سے ہوئیں اور وہ بھی پورے علاقے میں نہیں۔
بارش ہر قسم کے لوگوں کے لیے خوشی مہیا کرتی ہے۔ ہر ایک کے لیے روزگار اور مصروفیت نکل آتی ہے۔ میراثی گانا گاتے ہیں۔ جوگی بھی اپنی روزی کے لیے نکل پڑتے ہیں۔
کارونجھر کی پہاڑیوں میں، جہاں کے لیے مشہور ہے کہ وہاں سینکڑوں جڑی بوٹیاں پیدا ہوتی ہیں۔ بعض مقامی لوگ کچھ جڑی بوٹیاں جمع کرکے بیچتے نظر آتے ہیں اور اپنے حساب سے بتاتے رہتے ہیں کہ فلاں جڑی بوٹی فلاں بیماری کے لیے مفید ہے۔
سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور علاقے سے ناواقفیت کی وجہ سے سیاحوں کو گائیڈ کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ فریضہ چھوٹے چھوٹے بچے سرانجام دیتے ہیں۔ ایک بارہ سالہ بچے کشوری نے بتایا کہ وہ ایک روز میں تین سو روپے تک کما لیتا ہے۔ اور اس طرح کے ننھے منے دس گائیڈ ہیں۔
بارش ہوتی ہے تو انسان ہی نہیں مویشی بھی خوش ہوتے ہیں۔ انہیں پینے کا میٹھا پانی میسر ہو جاتا ہے۔
قیام پاکستان کے چھیاسٹھ سال بعد بھی تھر کے لوگ وہی پرانی زندگی گزار رہے ہیں۔ نہ پینے کے پانی کی سہولت نہ تعلیم، صحت اور روزگار کی۔ نتیجے میں بارشیں نہ ہونے کی صورت میں چالیس فیصد آبادی نقل مکانی کرتی ہے۔
تھر میں درخت کاٹنا پاپ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ترقی کے نام پر ہزاروں درختوں کو تباہ کردیا ہے۔ تھر میں درخت اگانا یا اس کا بڑا ہونا مذاق نہیں اس میں بیس برس سے زیادہ کا عرصہ چاہئے۔
مٹھی اور اسلام کوٹ کے درمیان روڈ اور ایئر پورٹ کی تعمیر کے لیے ریت کے ٹیلوں کو الٹ دیا گیا ہے، اور ماحولیات کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا ہے۔
ماحولیات پر کام کرنے والے بھارومل امرانی کا کہنا ہے کہ روڈ بنانے کے لیے ٹھیکیدار کو مٹی کے کام کے لیے الگ رقم ملتی ہے۔ اور اسکو یہ مٹی باہر سے لانی ہے مگر یہاں ایسا نہیں کیا گیا۔ درخت کاٹنا بھی منع ہے، مگر روڈ بنانے کے لیے یہاں کے درخت کاٹ کر روڈ بنانے کا ایندھن بنایا جارہا ہے۔
یہ ہریالی اور سبزہ چند دن کی بات ہے۔ سماجی کارکن علی اکبر بتاتے ہیں کہ تیسری بارش نہ پڑنے کی وجہ سے یہ ہریالی اب سوکھنے لگی ہے۔ ایک ہفتے کے اندر بارش نہیں ہوئی توفصلیں بھی ناکام ہو جائیں گی اور بمشکل ایک تہائی پیداوار ہوسکے گی۔
تصاویر اور تحریر: سہیل سانگی