پہلگام واقعے پر پاکستان کیساتھ بڑی جنگ نہیں ہوسکتی، بھارتی تجزیہ کار
بھارتی ٹی وی چینلز اور انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دفاتر میں جمعہ کے روز طبل جنگ بجایا جارہا تھا، تاہم پرسکون آوازیں بھی آن لائن پورٹلز پر جگہ بنا رہی تھیں۔
دوطرفہ اور علاقائی امن کے نقطہ نظر سے معقول اور تسلی بخش آوازوں میں سابق بھارتی فوجی افسر اور دفاعی تجزیہ کار پروین ساہنی بھی شامل تھے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق بھارت کے تجربہ کار دفاعی تجزیہ کار پروین ساہنی نے واضح وجوہات پیش کیں کہ پہلگام سانحے پر بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی گرم جنگ کیوں نہیں ہو سکتی، حالانکہ سیاسی فائدے کے لیے اس جنگ کا بہانہ کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر موجودہ جنگ بندی متاثر ہوسکتی ہے اور سرحدوں پر مقامی کسانوں کا امن خراب کرنے کے لیے دونوں طرف سے فائرنگ دوبارہ شروع ہوسکتی ہے۔
انہوں نے اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے کئی عوامل پیش کیے کہ کوئی جنگ نہیں ہوسکتی، ان میں سے سب سے اہم چین کا عنصر ہے۔
پروین ساہنی نے کہا کہ اگست 2019 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی متنازع ریاست کی حیثیت میں تبدیلی نے پاکستان سے زیادہ چین کو ناراض کیا ہے۔
اپریل 2020 میں بھارت اور چین کے فوجیوں کے درمیان گلوان میں پر تشدد لڑائی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
پروین ساہنی نے نشاندہی کی کہ چینی سرحد پر بہت زیادہ فوجی تعینات ہیں اور بھارت کے لیے انہیں فوری طور پر منتقل کرنا ممکن نہیں ہوگا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جنگ کے شادیانے جلد خاموش ہو جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نایاب ہندو رہنما ہیں جو جنگ کا بہانہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں، کیونکہ یہ ان کی سیاست کو تقویت دیتا ہے۔
نیوز پورٹلز کے مطابق نریندر مودی نے جمعرات کو بہار میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کیا اور اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، جہاں حکومت نے پہلی بار انٹیلی جنس کی ناکامی کا اعتراف کیا تھا۔












لائیو ٹی وی