عالمی برادری پاکستان میں زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی اموات کم کرنے کیلئے سرمایہ کاری کرے، ڈبلیو ایچ او

شائع April 8, 2025
2023 میں 2 لاکھ 60 ہزار خواتین بچے کی پیدائش سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے نتیجے میں ہلاک ہوئیں — فائل فوٹو: آصف عمر
2023 میں 2 لاکھ 60 ہزار خواتین بچے کی پیدائش سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے نتیجے میں ہلاک ہوئیں — فائل فوٹو: آصف عمر

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بین الاقوامی اور قومی شراکت داروں سے کہا ہے کہ وہ پاکستان میں زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی اموات کو کم کرنے کے لیے فوری طور پر سرمایہ کاری کریں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صحت کے عالمی دن کے موقع پر جاری ہونے والے ایک بیان میں ڈبلیو ایچ او کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ہر روز ایک ماہ سے کم عمر کے 675 بچے اور 27 مائیں قابل علاج پیچیدگیوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں ہر سال 9800 سے زائد مائیں اور 2 لاکھ 46 ہزار 300 نوزائیدہ بچے موت کا شکار ہوجاتے ہیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ 90 ہزار سے زائد بچے پیدا ہوتے ہیں۔

پاکستان میں عالمی ادارہ صحت کے نمائندے ڈاکٹر ڈیپینگ لو نے کہا کہ ہر ملک کو خوشحال مستقبل کے لیے صحت مند ماؤں اور صحت مند نوزائیدہ بچوں کی ضرورت ہوتی ہے، اور اگر ہم سب اپنی کوششوں کو تقویت دیں تو زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی اموات کا خاتمہ ممکن ہے، عالمی ادارہ صحت اس سلسلے میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک ماں یا نوزائیدہ بچے کی موت بہت بڑا نقصان ہے، اور غیر فعالیت کی قیمت کارروائی کی لاگت سے کہیں زیادہ ہے۔

زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی صحت میں سرمایہ کاری کرنے والے ہر امریکی ڈالر پر منافع کا تخمینہ 9 سے 20 ڈالر ہے، زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی صحت پر خرچ کرنا انسانی اثاثہ جات میں سرمایہ کاری ہے لاگت نہیں جس سے معاشی ترقی، خوشحال اور صحت مند معاشرے پیدا ہوتے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق گزشتہ برسوں کے دوران پاکستان نے نمایاں پیش رفت کی ہے، زچگی کی شرح اموات 2006 میں فی ایک لاکھ زندہ پیدائشوں پر 276 اموات سے کم ہو کر 2024 میں 155 ہو گئی۔

نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح 2006 میں فی 1000 زندہ پیدائشوں میں 52 سے کم ہو کر 2024 میں 37.6 ہو گئی ہے، اور مردہ بچوں کی پیدائش 2000 میں 39.8 فی 1000 پیدائشوں سے کم ہو کر 2024 میں 27.5 ہو گئی ہے۔

پاکستان نے ڈبلیو ایچ او اور شراکت داروں کے تعاون سے ملک بھر میں زچگی اور نوزائیدہ ٹیٹنس (ایم این ٹی) سے نمٹنے میں بھی پیش رفت کی ہے، پاکستان کی تقریباً 80 فیصد آبادی (19 کروڑ افراد) اب ان علاقوں میں رہتی ہے جہاں نوزائیدہ ٹیٹنس کا پھیلاؤ کنٹرول حد میں ہے۔

اس موقع پر اقوام متحدہ کے خصوصی اداروں نے ایک مشترکہ رپورٹ بھی جاری کی جس میں متنبہ کیا گیا ہے کہ امداد میں کٹوتی سے زچگی کے دوران ہونے والی اموات کے خاتمے میں ہونے والی نازک پیش رفت کو خطرہ لاحق ہے، اور متنبہ کیا گیا ہے کہ فوری اقدامات کے بغیر متعدد ممالک میں حاملہ خواتین کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یونیسیف، یو این ایف پی اے، ورلڈ بینک گروپ، ڈبلیو ایچ او اور اقوام متحدہ کے پاپولیشن ڈویژن نے رپورٹ میں کہا ہے کہ آج کل خواتین کے حمل اور زچگی سے بچنے کے امکانات پہلے سے کہیں زیادہ ہیں، لیکن دنیا بھر میں امداد میں غیر معمولی کٹوتی بڑے پیمانے پر پسپائی کے خطرے کو ظاہر کرتی ہے۔

’زچگی کی شرح اموات میں رجحانات‘ کے عنوان سے جاری کی گئی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2000 سے 2023 کے درمیان زچگی کے دوران ہونے والی اموات میں 40 فیصد کمی آئی ہے، جس کی بڑی وجہ ضروری صحت کی خدمات تک بہتر رسائی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2016 کے بعد سے بہتری کی رفتار نمایاں طور پر سست ہو گئی اور ایک اندازے کے مطابق 2023 میں 2 لاکھ 60 ہزار خواتین بچے کی پیدائش سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے نتیجے میں ہلاک ہو گئیں، جو تقریباً ہر دو منٹ میں ایک زچگی کی موت کے برابر ہے۔

یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب انسانی امداد میں کٹوتی سے دنیا کے بہت سے حصوں میں ضروری صحت کی دیکھ بھال پر شدید اثرات مرتب ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے ممالک زچہ و بچہ اور بچوں کی صحت کے لیے اہم خدمات کو واپس لینے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

ان کٹوتیوں کی وجہ سے صحت کی سہولتیں بند ہو گئی ہیں اور ہیلتھ ورکرز کو نقصان اٹھانا پڑا ہے، جب کہ زندگی بچانے والی اشیا اور خون بہنے، پری ایکلیمپسیا اور ملیریا کے علاج جیسی ادویات کی سپلائی چین میں بھی خلل پڑا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریسس نے کہا کہ اگرچہ یہ رپورٹ امید کی کرن دکھاتی ہے، لیکن اعداد و شمار اس بات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ آج بھی دنیا کے بیشتر حصوں میں حمل کتنا خطرناک ہے، حالانکہ اس حقیقت کے باوجود کہ زچگی کی اموات کی اکثریت کی وجہ بننے والی پیچیدگیوں کی روک تھام اور علاج کے لیے حل موجود ہیں۔

رپورٹ میں کووڈ-19 وبائی مرض کے زچگی کی بقا پر پڑنے والے اثرات کا پہلا عالمی جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے، ایک اندازے کے مطابق 2021 میں حمل یا بچے کی پیدائش کی وجہ سے مزید 40 ہزار خواتین ہلاک ہوئیں، جو گزشتہ سال کے 2 لاکھ 82 ہزار سے بڑھ کر 3 لاکھ 22 ہزار ہو گئیں۔

اس اضافے کا تعلق نہ صرف کووڈ 19 کی وجہ سے پیدا ہونے والی براہ راست پیچیدگیوں سے تھا، بلکہ زچگی کی خدمات میں بڑے پیمانے پر رکاوٹیں بھی تھیں۔

یہ وبائی امراض اور دیگر ہنگامی حالات کے دوران اس طرح کی دیکھ بھال کو یقینی بنانے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ حاملہ خواتین کو معمول کی خدمات کے ساتھ ساتھ 24 گھنٹے فوری دیکھ بھال تک قابل اعتماد رسائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 27 اپریل 2025
کارٹون : 26 اپریل 2025