متنازع وقف ترمیمی بل کیخلاف بھارت بھر میں مسلمانوں کا شدید احتجاج، ریلیاں اور مظاہرے
متنازع وقف ترمیمی بل کی منظوری کیخلاف بھارت بھر میں مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے۔
سرکاری خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کے مطابق کشمیر میڈیا سروس کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ نئی دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا نے آل انڈیا اسٹوڈنٹس یونین ایسوسی ایشن اور دیگر طلبا تنظیموں کی قیادت میں بل کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا، مظاہرین نے وقف بل کی منظوری کی مذمت کرتے ہوئے اسے اقلیتوں کے حقوق پر صریح حملہ قرار دیا۔
ریاست گجرات کے احمد آباد میں ہزاروں لوگ تاریخی جامع مسجد اور سیدی سید مسجد میں جمع ہوئے، انہوں نے نعرے لگائے اور اہم سڑکوں کو بلاک کر دیا، پولیس نے مظاہروں کو روکنے کی کوشش میں 50 سے زائد مظاہرین کو حراست میں لیا، چنئی (تمل ناڈو) اور کوئمبٹور میں بھی مظاہرے دیکھنے میں آئے، جہاں تملگا وتری کزگم کے ارکان اور مسلم تنظیمیں بل کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں۔
بنگلورو (کرناٹک) میں مظاہرین نے بل کو فوری طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا، بہار کے جموئی ضلع میں ہزاروں لوگ راجہ نگر گوسیا مسجد میں جمع ہوئے، انہوں نے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار، سابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی اور بھارتی وزرا بالخصوص چراغ پاسوان کے خلاف بل کی حمایت کرنے پر نعرے لگائے۔
رانچی (جھارکھنڈ) اور کولکتہ (مغربی بنگال) میں بھی مظاہرے پھوٹ پڑے، رانچی میں ایکرا مسجد کے باہر جمع ہونے والے ہزاروں مسلمان، بینرز اٹھائے ہوئے اور اپنی سخت مخالفت کا اظہار کر رہے تھے۔
مظاہرین نے بل کو اپنے آئینی حقوق پر حملہ قرار دیتے ہوئے اسے فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا، کولکتہ کے پارک سرکس کراسنگ پر، سیکڑوں مسلمان سڑکوں پر نکل آئے، ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی اس بل کو ملک کو تقسیم کرنے اور قانونی ترامیم کی آڑ میں مسلمانوں کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
یہ بل بی جے پی کے لیے اپنے تقسیمی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ایک آلے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
دریں اثنا، حکام نے اترپردیش کو ہائی الرٹ پر رکھا، لکھنؤ، سنبھل، بہرائچ، مراد آباد، مظفر نگر، سہارن پور اور نوئیڈا سمیت بڑے شہروں میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی تھی۔
لکھنؤ میں عوامی اجتماعات پر نظر رکھنے کے لیے ڈرون اور سی سی ٹی وی کی نگرانی کو بڑھادیا گیا، یاد رہے کہ بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا نے جمعہ کے روز متنازع وقف ترمیمی بل کی منظوری دی تھی، جس کے خلاف نماز جمعہ کے بعد مسلمانوں نے بھارت بھر میں مظاہرے کیے، اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
بھارتی صدر کے دستخط کے بعد وقف ترمیمی بل نیا قانون بن جائے گا، جس کے نتیجے میں بھارتی حکومت کو مسلمانوں کی تاریخی ورثے کی حامل کھربوں روپے کی جائیدادوں کے انتظامات سنبھالنے میں مدد ملے گی۔