آئینی عدالت سے مواخذے کی توثیق، جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول برطرف
جنوبی کوریا کی آئینی عدالت نے مارشل لا کے نفاذ پر مواخذے کی توثیق کرتے ہوئے صدر یون سک یول کو برطرف کر دیا، گزشتہ سال مارشل لا کے نفاذ نے ملک میں دہائیوں کے بدترین سیاسی بحران کو جنم دیا تھا۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ مہینوں کے سیاسی خلفشار کے خاتمے کا سبب بنے گا، جس نے ایشیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت میں شرح نمو کو سست رو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ سے نمٹنے کی کوششوں کو متاثر کیا ہے۔
ملک کے آئین کے مطابق یون سک یوول کی برطرفی کے بعد 60 دن کے اندر اندر صدارتی انتخابات کروانا ضروری ہے۔
وزیر اعظم ہان ڈک سو نئے صدر کے حلف اٹھانے تک قائم مقام صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہیں گے۔
سیئول کی ایوا یونیورسٹی کے پروفیسر لیف ایرک ایزلے نے کہا کہ آئینی عدالتوں کے متفقہ فیصلے نے غیر یقینی صورتحال کے ایک بڑے ذریعے کو ختم کر دیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیئول کی اگلی انتظامیہ کو شمالی کوریا کی فوجی دھمکیوں، چین کے سفارتی دباؤ اور ٹرمپ کے تجارتی محصولات سے نمٹنے کے لیے ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا ہوگا۔
قائم مقام چیف جسٹس مون ہیونگ بی نے کہا کہ یون سک یول نے 3 دسمبر کے مارشل لا کے اعلان کے ذریعے صدر کی حیثیت سے اپنے فرائض کی خلاف ورزی کی، آئین کے تحت حاصل اختیارات سے تجاوز کیا اور اپنے اقدامات کو جمہوریت کے لیے سنگین مسئلہ قرار دیا۔
مون ہیونگ بی نے کہا کہ ’(یون) نے عوام کے اعتماد کے ساتھ سنگین خیانت کی ہے جو جمہوری مملکت کے خودمختار ارکان ہیں، یون کے مارشل لا کے اعلان نے معاشرے کے تمام شعبوں، معیشت، خارجہ پالیسی میں افراتفری پیدا کردی تھی۔‘
یون کی برطرفی کا مطالبہ کرنے والی ریلی میں موجود ہزاروں افراد فیصلہ سنتے ہی خوشی سے جھوم اٹھے اور نعرے لگاتے رہے کہ’ہم جیت گئے!’، یون کی سرکاری رہائش گاہ کے قریب جمع ہونے والے ان کے حامیوں نے غصے میں ردعمل کا اظہار کیا۔
یون ہاپ نیوز ایجنسی کے مطابق مظاہرہ کرنے والے ایک شخص کو پولیس بس کی کھڑکی توڑنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
جمعہ کے فیصلے سے جنوبی کوریا کی کرنسی ’وون‘ بڑی حد تک بے پرواہ رہی اور مقامی وقت کے مطابق رات 2 بج کر 49 منٹ (پاکستانی وقت صبح 7 بج کر 49 منٹ) تک ڈالر کے مقابلے میں وون کی قدر ایک فیصد اضافے کے ساتھ 1436.6 رہی۔
بینچ مارک ’کے او ایس پی آئی‘ میں 0.7 فیصد کی کمی واقع ہوئی اور صبح سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی کیونکہ متوقع منظر نامہ یہ تھا کہ عدالت مواخذے کے بل کو برقرار رکھے گی۔
دلائل مسترد
عدالت نے یون سک یول کے زیادہ تر استدلال کو مسترد کر دیا کہ انہوں نے مرکزی اپوزیشن جماعت کی جانب سے پارلیمانی اکثریت کے غلط استعمال پر خطرے کی گھنٹی بجانے کے لیے مارشل لا کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اختلافات کو دور کرنے کے لیے قانونی طور پر جائز راستے موجود ہیں۔
قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ مارشل لا کے حکم نامے میں کوئی جواز نہیں تھا اور یہ طریقہ کار کے لحاظ سے بھی ناقص تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یون فوج کو متحرک کرکے پارلیمنٹ کے کاموں میں خلل ڈالنے اور حکومت کے تینوں ستونوں کی آزادی کے تحفظ کی آئینی ذمہ داری کی سنگین خلاف ورزی کے مرتکب قرار پائے۔
یون کی حکمراں پیپلز پاور پارٹی کے عبوری رہنما کوون ینگ سی نے عوام سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ پارٹی نے عدالت کے فیصلے کو عاجزی کے ساتھ قبول کرتے ہوئے ملکی استحکام کے لیے قائم مقام صدر کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عہد کیا ہے۔
فیصلے کے بعد قائم مقام صدر ہان ڈک سو نے کہا کہ وہ ایک منظم اور پرامن صدارتی انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔
توقع ہے کہ وزیر خزانہ چوئی سانگ موک بینک آف کوریا کے گورنر اور مالیاتی ریگولیٹرز کے ساتھ ایک ہنگامی اجلاس طلب کریں گے۔
64 سالہ یون سک یول کو مارشل لا کے اعلان سے متعلق بغاوت کے الزامات پر فوجداری مقدمے کا سامنا ہے۔
وہ جنوبی کوریا کے پہلے موجودہ صدر ہیں جنہیں 15 جنوری کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن مارچ میں ایک عدالت کی جانب سے ان کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کیے جانے کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔
یہ بحران یون کی جانب سے مارشل لا کے اعلان کی وجہ سے پیدا ہوا تھا، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’ریاست مخالف‘ عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے اور حزب اختلاف کی ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے اپنی پارلیمانی اکثریت کا مبینہ غلط استعمال ملک کو تباہ کر رہا ہے۔
یون نے 6 گھنٹے بعد یہ حکم اس وقت واپس لے لیا تھا جب پارلیمانی عملے نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے آنے والے اسپیشل آپریشنز کے فوجیوں کو روکنے کے لیے رکاوٹیں اور آگ بجھانے والے آلات کا استعمال کیا تھا جنہوں نے پارلیمنٹ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے کھڑکیاں توڑ دی تھیں، جہاں قانون سازوں نے مارشل لا کو مسترد کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔
یون سک یول نے کہا ہے کہ ان کا کبھی بھی ہنگامی فوجی حکمرانی کو مکمل طور پر نافذ کرنے کا ارادہ نہیں تھا اور اس کے نتائج کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔