• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

افغانستان "امن عمل" میں ملا برادر کے اہم کردار کا خواہاں

شائع September 26, 2013

ملا عبدالغنی برادر۔ انٹرنیٹ فوٹو
ملا عبدالغنی برادر۔ انٹرنیٹ فوٹو

اسلام آباد: افغانستان کے پارلیمنٹ کے ایک وفد کے سربراہ، سید فرخ شاہ فریابی جناب نے بدھ کے روز کہا ہے کہ طالبان رہنما ملا برادر کی رہائی بے معنی ہو جائے گی، اگر وہ امن کے عمل میں کوئی کردار ادا نہ کر پائے۔

اسلام آباد میں منعقدہ پاکستان افغانستان پارلیمانی مذاکرات کے نویں دور کے اختتام پر ایک پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا "ہم ملا برادر کی افغانستان حوالگی نہیں چاہتے بلکہ اس عمل کو بامقصد بنانے کے لیے ان کو صحیح معنوں میں رہا کیا جانا چاہئے۔"

مذکورہ پارلیمانی مذاکرات، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی کے تعاون سے اسلام آباد اور کابل میں باری باری منعقد ہوتے ہیں۔

مشرانو جرگہ (افغان سینیٹ) کے سیکرٹری سید جناب کا کہنا تھا کہ افغانستان سے 2014 میں نیٹو افواج کی واپسی کے بعد، امریکی لڑاکا افواج کی موجودگی سے پاکستان کو تشویش نہیں ہونی چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک بحیثیت ایک خودمختار ملک، افغانستان کو کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا حق ہے تاہم اس حوالے سے رہنما اصول یہ ہے کہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونا چاہئے۔

ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایک معاہدے اور مفاہمت کے تحت امریکی افواج افغانستان میں رہیں گے، تاہم اس سے پاکستان کے مفادات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغانستان کے ہندوستان کے ساتھ تعلقات پر بھی پاکستان کو کسی تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے اس تصور کی بھی تردید کی افغانستان میں ہندوستان کے قونصل خانوں کی تعداد امریکی اور برطانوی قونصل خانوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے اور انہیں پاکستان کے خلاف کارروائیوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

ان کے مطابق، افغانستان میں ہندوستانی قونصل خانوں کی تعداد اب بھی وہی ہے جو کہ افغان بادشاہ ظاہر شاہ کے زمانے میں تھی اور بتایا کہ پاکستان اور ہندوستان کے قونصل خانوں کی تعداد ان کے ملک میں برابر ہے۔

سید جناب کا کہنا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اور افغانستان مل کر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے چیلنجز کا سامنا کریں اور ان کے خاتمے کے لیے اقدامات کریں۔

انہوں نے مذاکرات کے لیے پاکستانی وفد کے سربراہ سینیٹر افراسیاب خٹک کے ہمراہ ایک مشترکہ بیان پڑھ کر سنایا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ سرحدی علاقوں میں دشت گرد گروہوں کی کاروائیوں سے نمٹنے کے لیے تعاون اور رابطہ بڑھایا جائے اور اس بات پر بھی شرکاء کا اتفاق ہے کہ دشت گرد سرحد کے دونوں جانب معصوم اور بے گناہ شہریوں پر حملے کر رہے ہیں جس سے دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ "تجربے سے ثابت ہوتا ہے کہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے دونوں ملکوں کے سیکورٹی اداروں کا ایماندارانہ تعاون اور رابطہ ضروری ہے۔"

افغانستان کے پارلیمنٹرینز کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جمہوری قوتوں کے استحکام سے علاقے میں امن کی بحالی اور استحکام کے لیے مثبت اثر پڑے گا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ان کے ملک میں آنے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات سے ان کے ملک میں جمہوریت کو استحکام ملے گا۔

شرکاء نے اس بات پر کلی طور پر اتفاق کیا کہ علاقے میں امن کا عمل اور جمہوریت کا استحکام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

ان کے مطابق گو کہ پالیسی کے حوالے سے فیصلے کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے تاہم دونوں ملکوں کی پارلیمنٹ کو تعلقات میں بہتری کے لیے حکومت کو تجاویز دینی چاہئیں اور حکومتی پالیسیوں کی سمت پر بھی نظر رکھنا چاہئے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024