تحریک انصاف طالبان کی ہمدرد ہونے کی وجہ سے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئی، ایمل ولی
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے صدر ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ تحریک انصاف قومی سلامتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی (پی سی این ایس) کے اجلاس میں اس لیے شریک نہیں ہوئی کیونکہ وہ ’طالبان کی ہمدرد‘ ہے۔
ہفتے کے روز ڈان نیوز ٹی وی کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں بات کرتے ہوئے ایمل ولی نے کہا، ’ یہ تیسری بار ہے کہ طالبان کے ہمدرد (تحریک انصاف) خیبر پختونخوا میں حکومت میں ہیں اور آپ ان سے کیا توقع کرتے ہیں؟’
گزشتہ ہفتے، ملک کے اعلیٰ سول اور فوجی رہنما پارلیمنٹ ہاؤس میں دہشت گردی پر قابو پانے کے اقدامات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اکٹھا ہوئے تھے، تاہم تحریک انصاف نے جیل میں قید پارٹی کے بانی عمران خان سے ملاقات کی درخواست پوری نہ ہونے پر اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ کمیٹی کے اراکین نے حالیہ دہشت گردی کی کارروائیوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی، متاثرین کے اہل خانہ سے یکجہتی کا اظہار کیا اور ملک کے تمام شکلوں اور مظاہر میں دہشت گردی کے خاتمے کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا۔
انہوں نے انسداد دہشت گردی کے آپریشنز کرنے میں سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت کو بھی سراہا۔
ایمل ولی نے پی ٹی آئی کے حوالے سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس اجلاس میں کریں گے جہاں ’ان‘ کے دہشت گردوں کے خلاف بات چیت اور فیصلے ہوں گے؟ وہ کبھی بھی ( ایسے اجلاس میں) شرکت نہیں کریں گے۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ’میں نے ریکارڈ پر کہا ہے کہ ہم نے عمران خان کو ’طالبان خان‘ کا لقب دیا، ہر پختون جانتا ہے کہ وہ طالبان کے وکیل رہے ہیں۔‘
انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب مبہم اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا، ’دوسری طرف وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے یہ بیان دیتے ہوئے دیکھا کہ ’خیبر پختونخوا میں آپ جو چاہیں دہشت گردی کریں لیکن پنجاب نہ آئیں۔‘
ایمل ولی نے مزید کہا کہ انہیں خیبر پختونخوا حکومت اور مرکز دونوں سے توقع ہے کہ وہ دہشت گردی کے مسئلے سے سنجیدگی سے نمٹیں گے اور سیکیورٹی فراہم کریں گے۔
وہ تحریک انصاف کے ابتدائی طور پر رضامندی ظاہر کرنے اور پھر اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کے ساتھ ساتھ وزیر داخلہ محسن نقوی اور مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف کی عدم موجودگی سے متعلق سوال کا جواب دے رہے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی سی این ایس کے اجلاس کے دوران آپریشن کرنے کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی لیکن دہشت گردی سے نمٹنے کا منصوبہ تھا۔
ایمل ولی نے مزید کہا، ’جس طرح انہوں (فوج) نے بغیر کسی نقصان کے (جعفر ایکسپریس) ٹرین کا واقعہ نمٹایا تھا ، ہم چاہتے ہیں کہ وہ اسی طرح باقی ملک کو بھی صاف کریں۔ ’
ایمل ولی خان سے جب آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے اس بیان کے بارے میں پوچھا گیا کہ حکومتی ناکامیاں پاکستان کی عسکریت پسندی کے خلاف مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں رکاوٹ بن رہی ہیں، تو اے این پی کے رہنما نے کہا،’میں نے اس بیان کو مثبت انداز میں دیکھا ہے کہ آرمی چیف کا وزیر اعظم سے کہنا ہے کہ آپ ہمیں سرحدوں پر جانے دیں (اور اپنا کام کرنے دیں) اور اپنی ذمہ داریاں پوری کر کے ہمیں دوسرے معاملات میں نہ الجھائیں۔ ’
گزشتہ ہفتے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک اعلامیے میں پی سی این ایس نے کہا کہ ’کمیٹی نے دہشت گرد نیٹ ورکس کو ختم کرنے، لاجسٹک سپورٹ کو روکنے، اور دہشت گردی اور جرائم کے گٹھ جوڑ کو ختم کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان اور ’عزم استحکام‘ حکمت عملی پر فوری عمل درآمد پر زور دیا ہے۔‘
اعلامیے میں ریاست کی مکمل قوت کے ساتھ دہشت گردی کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد اور سیاسی عزم کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قومی اتفاق رائے کا مطالبہ کیا گیا۔
دہشت گرد گروہوں کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے بڑھتے ہوئے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کمیٹی نے عسکریت پسند تنظیموں کے ڈیجیٹل نیٹ ورکس کو نشانہ بنانے کے لیے ایک فریم ورک کا بھی مطالبہ کیا۔