ترکیہ: اکرام اوغلو کی گرفتاری پر احتجاج کی کال، حکومت کی حزب اختلاف کو وارننگ
ترکیہ نے استنبول کے میئر اکرام امام اوغلو کو حراست میں لیے جانے کے بعد حزب اختلاف کی جانب سے سڑکوں پر احتجاج کی ’ غیرقانونی ’ کال دینے پر خبردار کردیا۔
برطانوی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق استنبول کے میئر کو حراست میں لیے جانے کے بعد ترکیہ میں ایک دہائی سے زائد عرصے بعد سول نافرمانی کے بڑے مظاہرے دیکھنے میں آئے، جس کے بعد حکومت نے حزب اختلاف کی جانب سے سڑکوں پر احتجاج کی ’ غیرقانونی ’ کال دینے پر خبردار کیا۔
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کی حکومت کی جانب سے یہ وارننگ ایسے وقت میں جاری کی گئی ہے جب ویک اینڈ پر عدالت کی جانب سے استنبول کے میئر کو باقاعدہ طور پر گرفتار کرنے کے فیصلے کی توقع کی جا رہی ہے، جس کے بعد مظاہروں اور ترکیہ کے اثاثوں کی فروخت میں تیزی آسکتی ہے۔
ترکیہ کے وزیر داخلہ علی یرلیکایا نے کہا ہے کہ امام اوغلو کو حراست میں لیے جانے کے بعد عوامی اجتماعات پر چار روزہ پابندی عائد کی گئی تھی، اس کے باوجود جمعرات کو استنبول میونسپل ہیڈکوارٹر ، یونیورسٹی کیمپس اور دیگر جگہوں پر ہونے والے احتجاج پر 53 افراد کو حراست میں لیا گیا جبکہ اس دوران 16 پولیس افسران بھی زخمی ہوئے۔
ان احتجاجی مظاہروں کے دوران مختلف مقامات پر جھڑپیں بھی ہوئیں۔
صدر اردوان کے سب سے بڑے سیاسی حریف امام اوغلو، جو مقامی حکومتوں کے انتخابات میں اردوان کی جماعت کو شکست بھی دے چکے ہیں، کو حراست میں لیا گیا تھا اور انہیں مالی مفادات اور دہشت گرد گروپ کی امداد جیسے الزامات کا سامنا ہے، انہیں اتوار تک حراست میں رکھا جاسکتا ہے اور اس مدت میں عدالت کو ان کی گرفتاری کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوگا۔
میئر اکرام امام اوغلو کی مرکزی حزب اختلاف کی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) نے اوغلو کی حراست کو سیاسی بنیادوں پر کیا گیا اقدام قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے اور عوام پر اس کے خلاف پرامن احتجاج کرنے پر زور دیا ہے، دوسری جانب یورپی رہنماؤں نے اس اقدام کو آمریت قرار دیا ہے۔
وزیرداخلہ علی یرلیکایا اور وزیر انصاف یلمز تنک نے سی ایچ پی کے رہنما اوزغر اوزیل کی احتجاج کی کال پر تنقید کرتے ہوئے اسے ’ غیر ذمے دارانہ ’ قرار دیا ہے۔
یلمز تنک نے جمعے کو اپنے ’ ایکس ’ اکاؤنٹ پر کہا،’ اجتماع اور مارچ کرنا بنیادی حقوق ہیں، مگر جاری قانونی تحقیقات پر سڑکوں پر احتجاج کی کال دینا غیرقانونی اور ناقابل قبول ہے۔’
یلمز تنک نے کہا کہ ’ آزادانہ اور غیر جانبدار ’ عدالتیں اس مقدمے کی جانچ کررہی ہیں۔ انہوں نے امام اوغلو کی گرفتاری کا تعلق صدر اردوان سے جوڑنے پر بھی خبردار کیا۔
ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ، ازمیر اور استنبول اور دیگر صوبوں میں جمعرات کو احتجاجی مظاہرے ہوئے جن سے نمٹنے کے لیے پولیس نے رکاوٹیں کھڑی اور سڑکیں بند کردیں، اور احتجاجی مظاہرین بالخصوص طالب علموں کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن کا استعمال کیا۔
ترکیہ میں حکومت کے خلاف 2013 میں غیزی پارک سے احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا جس کے بعد ملک بھر میں کریک ڈاؤن کیا گیا، جسے اردوان کے 22 سالہ دور آمریت کے محور کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد ترکیہ نے سول نافرمانی کو ڈرامائی طور پر کچلا ہے۔ صدر اردوان نے جمعرات کو حزب اختلاف کی تنقید کو ’ ڈرامہ بازی’ قرار دیا جو اندرونی غلطیوں سے اس کی توجہ ہٹاتی ہے۔
جمعرات کو استنبول میں مرکزی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے سی ایچ پی کے رہنما اوزیل نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ،’ اردوان، تم لوگوں کے سڑکوں پر آنے سے خوف زدہ ہو، اور اب ہم سڑکوں پر ہیں، اور تمھیں خوف زدہ کرتے رہیں گے۔’
ریلی میں شامل ہزاروں حامیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے اوزیل نے مزید کہا، ’ تم نے ہمارے منتخب کردہ نمائندے کو قید میں رکھا ہوا ہے، اور ہم گھروں میں نہیں بیٹھیں گے۔
انہوں نے ترک صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،’ مسٹر طیب تم خوف زدہ ہو، اور پوچھ رہے ہو کہ کیا ہم لوگوں کو سڑکوں پر بلا رہے ہیں؟ کیا ہم لوگوں کو اسکوائر پر بلا رہے ہیں؟ ہاں بالکل ہم بلارہے ہیں۔
جمعے کو اوزیل نے عوامی احتجاج پر پابندی کو ’ غیرقانونی’ قرار دیتے ہوئے لوگوں سے اپنے ووٹ کے حق کے تحفظ کے لیے جمعے کی شام کو دوبارہ پرامن احتجاج کرنے کی اپیل کی۔
ان کی اپیل سے حکومت پر دباؤ بڑھا اور ملک بھر میں سیاسی تناؤ کی شدت میں بھی اضافہ ہوا، کیونکہ امام اوغلو کے حامی پہلے ہی سخت تر اقدامات کرنے کا مطالبہ کررہے تھے، جبکہ امام اوغلو کی حراست کے بعد ہی سے سی ایچ پی کے اندر سے بھی یہی مطالبہ کیا جارہا تھا۔
دوسری بار استنبول کے میئر منتخب ہونے والے 54سالہ امام اوغلو کو ایک ایسے وقت میں حراست میں لیا گیا جب سی ایچ پی اتوار کے روز صدارتی انتخاب کے لیے اپنے امیدوار کے طور پر ان ( امام اوغلو ) کے نام کا اعلان کرنے والی تھی۔ سی ایچ پی نے عام لوگوں سے کہا کہ وہ عوامی مزاحمت کی علامت کے طور پر ملک بھر میں رکھے گئے بیلٹ باکسز میں اوغلو کے لیے ووٹ ڈالیں۔
واضح رہے کہ 2028 سے پہلے صدارتی الیکشن نہیں ہوسکتا اور 71 سالہ طیب اردوان صرف اسی صورت میں دوبارہ الیکشن لڑسکتے ہیں جب پارلیمان وقت سے پہلے انتخابات کا اعلان کرے۔
امام اوغلو کی نظربندی حزب اختلاف کی شخصیات کے خلاف مہینوں پر محیط کریک ڈاؤن کا انتہائی نکتہ ہے جسے ناقدین ان کے انتخابی امکانات کو ٹھیس پہنچانے اور اختلاف رائے کو دبانے کے طور پر پیش کرتے ہیں، جبکہ حکومت اس کی تردید کرتی ہے۔
ترکیہ کی کرنسی لیرا اور بونڈز کی قدر بھی امام اوغلو کی حراست کے بعد سے زوال کا شکار ہے، جبکہ جمعے کو استنبول کے حصص 7 فیصد گرگئے۔
مرکزی بینک نے بدھ کے روز ایک غیر طے شدہ اجلاس میں راتوں رات اپنی شرح میں اضافہ کردیا اور کرنسی کو مستحکم کرنے کے لیے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائئر میں 10 ارب ڈالر صرف کرڈالے۔
ترکیہ کی کرنسی کی قدر میں 12 فیصد کی تاریخی گراوٹ کے بعد ایک ڈالر کے مقابلے میں 38 لیرا تک پہنچ گئی ہے۔
بڑھتی ہوئی قیمتوں اور کرنسی کی قدر میں مسلسل کمی کا تدارک کرنے کی دو سالہ کوششوں کے باوجود معیشت کمزور ہے اور افراط زر 39 فیصد تک پہنچ گیا ہے، یہ طیب اردوان کی غیرروایتی مالیاتی محرکات کی حمایت کا نتیجہ ہے۔
جمعرات کو ایک انٹرویو میں، اوزیل نے رائٹرز کو بتایا کہ ان کی پارٹی انہیں اور سی ایچ اہلکاروں کو میونسپلٹی ہیڈکوارٹر سے ہٹانے کی کسی بھی کوشش کی مزاحمت کرے گی، جہاں وہ امام اوغلو کی حراست کے بعد سے مقیم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی امام اوغلو کی جگہ پر کسی کو بھی غیرمنصفانہ طور پر لانے کی بھی مزاحمت کرے گی۔
ترکی اور اس کے مغربی اتحادیوں کی طرف سے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دی جانے والی کالعدم کردستان ورکرز پارٹی کی مدد کرنے کے الزام میں تحقیقات کی وجہ سے ایک حکومتی نمائندہ میئر کی جگہ لے سکتا ہے۔
امام اوغلو کو یونیورسٹی کی جانب سے ان کی ڈگری منسوخ کیے جانے کے بعد ایک دن بعد حراست میں لیا گیا، اگر ان کی ڈگری بحال نہیں ہوتی تو وہ آئینی قوانین کے تحت صدر کا انتخاب نہیں لڑ پائیں گے جن کے تحت صدارتی امیدوار کے لیے چار سالہ ڈگری کا حامل ہونا ضروری ہے۔