پی اے سی کی مختلف وزارتوں میں مالی بے ضابطگیوں کی نشاندہی
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے 58 ارب روپے کی اقتصادی گرانٹس کے ختم ہونے پر بحث کی اور اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا اور مختلف وزارتوں میں اسی طرح کی مالی بے ضابطگیوں کو نوٹ کیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اجلاس کے دوران سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے بتایا کہ ہر سال 31 مئی تک فنڈز سرنڈر کیے جاتے ہیں۔ تاہم پی اے سی کے چیئرمین جنید اکبر نے تجویز پیش کی کہ فنڈز اس سے پہلے سرنڈر کیے جانے چاہئیں۔
کمیٹی کے رکن ثنااللہ خان مستی خیل نے مالیاتی انتظام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ضرورت سے زیادہ فنڈز مانگنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ تقرریاں اکثر میرٹ کے بجائے جانبداری کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔
چیئرمین جنید اکبر خان نے پی اے سی میں تین نئی ذیلی کمیٹیاں بنانے کا اعلان کیا۔ پہلی ذیلی کمیٹی کی صدارت طارق فضل چوہدری کریں گے اور ثنااللہ خان مستی خیل، رانا قاسم نون اور حنا ربانی کھر اس کی رکن ہوں گی۔
دوسری ذیلی کمیٹی کی صدارت سید نوید قمر کریں گے جس کے ارکان شبلی فراز، شزرہ منصب اور معین عامر پیرزادہ ہوں گے۔ تیسری ذیلی کمیٹی کی صدارت ملک عامر ڈوگر کریں گے جس کے ارکان شازیہ مری، ریاض فتیانہ اور افنان اللہ خان ہوں گے۔
آڈٹ پر تحفظات
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے فنانس ڈویژن سے متعلق آڈٹ اعتراضات، خاص طور پر گرانٹس کے لیپس ہونے اور ضمنی گرانٹس کی مختص کرنے سے متعلق اعتراضات کا جائزہ لیا، جو مبینہ طور پر ابتدائی بجٹ سے دگنے سے زیادہ تھے۔
ریاض فتیانہ نے سوال کیا کہ کیا صوبائی واجبات پر آڈٹ اعتراضات اٹھائے گئے؟
کمیٹی نے ضمنی گرانٹس کے عمل پر تحفظات کا اظہار کیا اور مزید سخت طریقہ کار تجویز کیا۔ ریاض فتیانہ نے تجویز پیش کی کہ اگر ایک فیصد سے زیادہ فنڈز سرنڈر ہوگئے یا ضائع ہوگئے تو متعلقہ سیکریٹری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جائے۔
پی اے سی نے مالی سال 23-2022 کے دوران باضابطہ پالیسی کی منظوری کے بغیر ملازمین کو اعزازیہ کی ادائیگیوں میں 2.4 ارب روپے کے آڈٹ اعتراضات کا بھی جائزہ لیا۔ آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایا کہ ادائیگی نقد میں کی گئی۔
سیکریٹری خزانہ نے ادائیگیوں کا دفاع کرتے ہوئے واضح کیا کہ اسی طرح کے اعزازیہ مختلف وزارتوں میں دیے گئے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نئی پالیسی وضع کر لی گئی ہے جسے منظوری کے لیے کابینہ میں پیش کیا جائے گا۔