’جہاں 4 اسپنرز چاہیے تھے وہاں ایک کھلایا اور نیوزی لینڈ 4 بھیج دیے‘
پاکستان کرکٹ ٹیم سابق کپتان شاہد آفریدی نے قومی سلیکٹرز کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ جہاں ہمیں 4 اسپنرز کی ضرورت تھی، وہاں ایک دو کھلائے اور اب نیوزی لینڈ کی وکٹوں پر 4 اسپنرز بھیج دیے۔
قومی ٹیم کے سابق اسٹار آل راؤنڈر شاہد خان آفریدی نے ایک تقریب سے خطاب میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی سلیکشن کمیٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ دورہ نیوزی لینڈ کے لیے کس ٹیم کا انتخاب کیا گیا ، قومی ٹیم کی فتوحات میں سلیکشن کمیٹی کا اہم کردار ہوتا ہے۔
شاہد آفریدی نے نیوزی لینڈ کے خلاف 5 ٹی20 میچوں کی سیریز کے لیے قومی ٹیم کے انتخاب پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اتنے مشکل ٹور کے لیے ناتجربہ کار فرسٹ کلاس کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا، انہوں نے فرسٹ کلاس کھلاڑیوں کو بھیجا جن کے پاس صرف 10 سے 11 میچوں کا تجربہ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں ہمیں 4 اسپنرز کی ضرورت تھی وہاں صرف ایک یا 2 اسپنرز کو منتخب کیا گیا اور فاسٹ باؤلرز کا انتخاب کیا گیا لیکن نیوزی لینڈ میں ہمیں صرف ایک اسپنر کی ضرورت تھی لیکن وہاں 4 اسپنرز بھیج دیے۔
سابق کپتان کا کہنا تھا کہ بیٹنگ کنسلٹنٹ محمد یوسف کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ کھلاڑیوں کو سکھارہے ہیں کہ کس گیند کو کس طرح کھیلنا ہے، یہ کوئی انڈر-14 نہیں ہے جو یہ سب سکھایا جارہا ہے، پاکستان ٹیم سیکھنے کی جگہ نہیں بلکہ کارکردگی دکھانے کی جگہ ہے۔
ایک سوال کے جواب میں شاہد آفریدی نے کہا کہ ان کے کھلاڑی ایک سسٹم کے تحت ٹیم میں شامل ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں کوئی سسٹم نہیں ہے، انہوں نے سوال کیا کہ جو کھلاڑی 5 ،6 سالوں سے ڈومیسٹک کرکٹ کھیل رہا ہے وہ کہاں ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ ہم کھلاڑیوں کو ایک دو مواقع دے کر سائیڈ لائن کردیتے ہیں اور نیا ٹیلنٹ نیا ٹیلنٹ کرنا شروع کردیتے ہیں لیکن نیا ٹیلنٹ اس قابل تو ہو کہ وہ کھیل تو سکے، عثمان خان اور محمد حسنین کو ٹیم میں رکھا لیکن جہاں انہیں کھلانا چاہیے تھا وہاں انہیں موقع ہی نہیں دیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ عثمان خان اتنے عرصے سے ٹیم کے ساتھ گھوم رہا ہے، پہلے اس کا حق بنتا تھا اور اس کے بعد نواز یا سمد جو بھی نئے لڑکے ہیں ان کا نام آتا ہے۔
سابق کپتان نے ٹیم کی بیٹنگ اپروچ پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جس کو دیکھو شاہد آفریدی بنا ہوا ہے، چھکوں کا بھی ایک وقت ہوتا ہے جب کہ سنگل ڈبل سے بھی گیم بنتا ہے، ڈاٹ گیندیں نہیں کھیلیں تو بھی گیم بنتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو بلے باز ہوتا ہے وہ باقاعدہ اپنے گیم شروع کرتے ہیں، گیند اگر سوئنگ یا سیم بھی ہورہا ہے تو باؤلرز کی عزت کرو کہ وہ اچھی باؤلنگ کررہا ہے، پر وکٹ پر 200 رنز نہیں بنتے۔
سابق آل راؤنڈر نے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) میں استحکام کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بورڈ کو ایک مستقل چیئرمین کی ضرورت ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے تسلیم کیا کہ بابر اعظم کو بطور کپتان کافی مواقع دیے گئے لیکن محمد رضوان کو صرف 6 ماہ کا وقت کیوں دیا گیا۔