بھارت کے انکار پر بنگلہ دیشی شہریوں نے طبی ویزوں کیلئے چین کا رخ کرلیا
بھارت نے بنگلہ دیش کے شہریوں کی جانب سے معمول کے مطابق طبی ویزوں کے لیے دی جانے والی درخواستیں عملے کی کمی کا بہانا بناکر مسترد کرنا شروع کر دی ہیں، اسی دوران چین کو طبی ویزوں کی پیشکش کو وسعت دینے اور تعلقات استوار کرنے کا نادر موقع مل گیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق 2023 میں بنگلہ دیشی شہریوں کے لیے بھارت کے ویزوں کا بڑا حصہ ان لوگوں کو ملا، جو سستی نجی صحت کی دیکھ بھال اور بنگالی بولنے والے ہسپتال کے عملے کے خواہاں تھے، جس سے پڑوسیوں کے مابین تعلقات کو مستحکم کرنے اور چین کے علاقائی اثر و رسوخ کو محدود کرنے میں مدد ملی تھی۔
بنگلہ دیش کے 4 ذرائع میں سے ایک، جن میں سے زیادہ تر سفارتکار ہیں، نے کہا کہ جب کوئی خلا پیدا ہوگا، تو دوسرے لوگ آئیں گے اور اس جگہ کو پُر کریں گے، اب علاج کے لیے کچھ لوگ تھائی لینڈ اور چین جا رہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگست کے بعد سے بھارت نے یومیہ ایک ہزار سے بھی کم میڈیکل ویزے جاری کیے ہیں جو کہ اس سے قبل یومیہ 5 سے 7 ہزار تک جاری کیے جاتے تھے۔
نوبیل امن انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی جانب سے بھارت کی دیرینہ اتحادی شیخ حسینہ واجد کی جگہ لینے کے بعد تعلقات سرد مہری کا شکار ہوئے، جس کے بعد ویزوں کے اجرا کی تعداد بھی کم ہوئی ہے۔
اگست 2024 میں مظاہروں سے بچنے کے لیے حسینہ واجد نے نئی دہلی میں پناہ لی تھی، اور بنگلہ دیش کی جانب سے انہیں مقدمے کے لیے واپس مانگے جانے کی درخواست کے بعد سے بھارت نے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
دونوں ممالک کے سرکاری اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ 2023 میں بھارت نے بنگلہ دیشیوں کو 20 لاکھ سے زائد ویزے جاری کیے، جن میں سے زیادہ تر طبی بنیادوں پر تھے، لیکن اس کے بعد سے بھارت کے انخلا نے چین کے لیے ایک پرکشش خلا کھول دیا ہے۔
چینی سفیر یاؤ وین نے کہا کہ رواں ماہ ہی بنگلہ دیشی شہریوں کے ایک گروپ نے علاج کے لیے جنوب مغربی صوبے یوننان کا دورہ کیا تاکہ ’طبی سیاحت کی مارکیٹ کے امکانات کو تلاش کیا جا سکے‘۔
یاؤ وین نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ عبوری حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اس کی کم از کم 14 کمپنیوں نے بنگلہ دیش میں 23 کروڑ ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے، جو اس عرصے میں کسی بھی ملک میں سب سے زیادہ ہے۔