خواتین کو وراثت سے محروم کرنیوالی رسومات کی کوئی شرعی اور قانونی حیثیت نہیں، وفاقی شریعت کورٹ
وفاقی شرعی عدالت (ایف ایس سی) نے اپنے تاریخی فیصلے میں کہا ہے کہ کوئی بھی رسم، جس کی بنیاد پر کسی خاندان کی کسی بھی خاتون رکن کو اس کے وراثت کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے، اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس اقبال حمید الرحمٰن، جسٹس خادم حسین ایم شیخ اور جسٹس امیر محمد خان پر مشتمل 4 رکنی بینچ نے 21 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ ضلع بنوں کے کچھ حصوں میں رائج چادر یا پرچی کے رواج کے خلاف دائر درخواست پر سنایا، جس میں خواتین کو قرآن و سنت کے ذریعے دیے گئے وراثت کے حق سے محروم رکھا گیا تھا، یا انہیں جرگوں کے ذریعے اپنی وراثت سے کم قیمت کا حصہ قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔
شرعی عدالت نے اس عمل کو غیر اسلامی اور غیر قانونی قرار دیا جس کی کوئی قانونی حیثیت بھی نہیں تھی، اس طرح کے مجرمانہ اقدامات پر سزا دی جاسکتی ہے۔
اپنی درخواست میں سیدہ فوزیہ جلال شاہ نے نہ صرف بنوں میں رائج روایات پر روشنی ڈالی بلکہ اپنی والدہ سیدہ افتخار بی بی کے لیے بھی ریلیف کی درخواست کی، جو مبینہ طور پر مقامی رسم و رواج کی وجہ سے اپنے والد اور شوہر کی وراثت میں حصے سے محروم تھیں۔
تاہم ایف ایس سی نے اس درخواست کو جزوی طور پر قبول کر لیا، جس میں درخواست گزار مقامی رسم کو غیر اسلامی قرار دینے کے لیے راحت مانگ رہی تھیں، اس طرح ریاست کے متعلقہ حکام کے اقدامات ’امر بالمعروف و نہی عنی المنکر‘ کے دائرہ کار میں آتے ہیں، جو 1991 کے ایکٹ ایکس (نفاذ شریعت ایکٹ، 1991) کے تحت ریاست کی اہم ذمہ داری ہے۔
درخواست گزار نے سورۂ النسا کی آیات 7، 11، 12 اور 14 کا بھی حوالہ دیا جس میں خواتین کی وراثت کے مسئلے پر بحث کی گئی ہے، اور مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان آیات کے مطابق میت کے ہر اہل قانونی وارث کو وراثت کا مناسب حصہ دیں۔
فیصلے میں وضاحت کی گئی ہے کہ دستیاب اعداد و شمار اور مختلف فریقین کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹس سے یہ واضح ہے کہ اس طرح کا مجرمانہ عمل، جس میں خواتین کو وراثت کے حق سے محروم کیا جاتا ہے، بہت عام بات ہے۔
اس سلسلے میں عام طور پر ایک بنیادی غیر قانونی عمل جسے عام طور پر ’حق بخشوائی‘ یا ’حق بخشوانا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، ملک میں مختلف شکلوں میں رائج تھا جس کے تحت مجرم یا غاصب اپنے غیر قانونی اور مجرمانہ کاموں کو زبردستی یا جذباتی طور پر بلیک میل کرکے مرد ارکان کے حق وراثت سے دستبردار ہونے کے لیے خاندان کی خواتین کو ایک قسم کا قانونی تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
زیادہ تر مدعا علیہ محکموں نے بھی معاشرے سے اس معاشرتی برائی کے خاتمے کے لیے پی پی سی کے تحت تعزیری قانون کے استعمال کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے۔
ایف ایس سی نے کہا کہ متعلقہ صوبائی محکمے، جو اس معاشرتی برائی کی اصلاح اور قرآن و سنت کے ذریعے خواتین کی املاک کے حقوق کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں، پی پی سی کی دفعہ 498-اے کے تحت سنگین مقدمات کے مجرم کے خلاف فوجداری مقدمہ بھی شروع کیا جاسکتا ہے، جو فوجداری قانون (تیسری ترمیم) ایکٹ، 2011 کے تحت پاکستان پینل کوڈ میں متعارف کرایا گیا تھا، کیونکہ یہ پی پی سی میں اس ترمیم کا مقصد اور وجہ تھی۔
اس سلسلے میں وہ 1991 کے ایکٹ ایکس (نفاذ شریعت ایکٹ، 1991) کی دفعہ 13 کے مطابق امر بالمعروف کے اصول پر اسلامی فضائل کی ترویج کے لیے مجرموں کے خلاف کیے گئے اپنے اجتماعی اقدامات اور فیصلوں کی بھی تشہیر کر سکتے ہیں، جو ریاست کا ایک اہم قانون ہے۔