ترکیہ: بدعنونی، دہشتگرد تنظیم کی مدد کے الزام پر استنبول کے میئر امام اوغلو گرفتار
ترک پولیس نے استنبول کے میئر اکرم امام اوغلو کو بدعنوانی اور ’دہشت گردی کی حمایت‘ پر 2 تحقیقات کے سلسلے میں گرفتار کر لیا، اس اقدام کو سیاسی قرار دے کر حزب اختلاف کی مرکزی جماعت نے اس پر تنقید کی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق امام اوغلو صدر رجب طیب اردوان کے اہم سیاسی حریف ہیں، اور یہ گرفتاری سے 2028 کے صدارتی انتخابات میں حزب اختلاف کی مرکزی جماعت سی ایچ پی کا امیدوار نامزد کیے جانے کے چند روز بعد کی گئی ہے۔
اردوان کے سب سے مضبوط چیلنجر کے طور پر بڑے پیمانے پر دیکھے جانے والے امام اوغلو کو نشانہ بنایا گیا، جسے ناقدین جعلی قانونی تحقیقات قرار دے رہے ہیں۔
امام اوغلو کے ایکس پر جاری بیان کے مطابق سیکڑوں پولیس اہلکاروں نے ان کے گھر پر علی الصبح چھاپہ مارا، حکومت نے کہا کہ ان کی حراست بدعنوانی کی تحقیقات اور ایک ’دہشت گرد تنظیم کی مدد‘ کے الزام میں کی گئی ہے۔
اس کے فوراً بعد ترکیہ نے سوشل نیٹ ورکس تک رسائی کو روک دیا، پولیس نے تقسیم اسکوائر کو بند کر دیا اور چار دنوں کے لیے تمام مظاہروں پر پابندی لگا دی۔
سی ایچ پی کے رہنما اوزگور اوزیل نے سٹی ہال میں ایک تقریر میں تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ ہوا ہے وہ بغاوت کی کوشش ہے، اکرم امام اوغلو کی امیدوار بننے کی آزادی چھینی جا رہی ہے۔
انہی الفاظ کے ساتھ میئر کی اہلیہ ڈاکٹر ڈیلک کایا اماموگلو نے بھی تنقید کی، ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ٹارگٹڈ سیاسی آپریشن ہے جس کا مقصد ترکیہ کے مستقبل کے صدر کو ختم کرنا ہے لیکن ہم لڑیں گے۔
سڑکوں پر احتجاج
گرفتار کے بعد ترکیہ میں سڑکوں پر بھی غم و غصے کو دیکھا گیا۔
40 سالہ ایک دکاندار نے کہا کہ ’ہم ایک آمریت میں رہ رہے ہیں!‘ 2003 سے اقتدار میں رہنے والے اردوان اور اے کے پی کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ جب بھی یہ آدمی اور اس کی گندی ٹیم کسی کو مضبوط ہوتا دیکھتے ہیں، وہ گھبرا جاتے ہیں اور غیر قانونی کام کرتے ہیں۔
احتجاج پر پابندی کے باوجود، 300 افراد نے پولیس اسٹیشن کے باہر ریلی نکالی، جہاں میئر کو قید کیا گیا ہے، مظاہرین نے چیختے ہوئے کہا کہ امام اوغلو آپ اکیلے نہیں ہیں اور حکومت مستعفی ہو۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز ترکیہ کی ایک یونیورسٹی نے استنبول کے میئر اکرام امام اوغلو کی ڈگری کو منسوخ کر دیا تھا، اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے میئر پہلے ہی متعدد عدالتی مقدمات کا نشانہ بن چکے ہیں، یونیورسٹی نے ان پر غلط طریقے سے ڈگری حاصل کرنے کا الزام عائد کیا۔
استنبول یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ صدر رجب طیب اردوان کے بڑے حریف اکرام امام اوغلو سمیت 28 گریجویٹس کی ڈگریاں واضح غلطیوں کے باعث واپس لے لی جائیں گی۔
جامعہ کے اس فیصلے سے وہ صدر کے عہدے کے لیے اردوان کو چیلنج کرنے کے موقع سے محروم ہو سکتے ہیں، ایک ایسا عہدہ جس کے لیے اعلیٰ تعلیم کی ڈگری درکار ہوتی ہے، ترکیہ کے سب سے بڑے شہر کے میئر کی حیثیت سے اپنی دوسری مدت میں موجود اکرام امام اوغلو کے اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کا امکان ہے۔
امام اوغلو کی سی ایچ پی پارٹی سے تعلق رکھنے والے قانون ساز مرات امیر نے کہا تھا کہ اس فیصلے سے ہماری جمہوریت کو شدید دھچکا لگا ہے، میئر کے دفتر نے اس وقت بزنس مینجمنٹ ڈپلومہ کی ایک فوٹو کاپی شائع کی، جو اکرام امام اوغلو نے 1995 میں استنبول یونیورسٹی سے حاصل کی تھی، جب ایک صحافی نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس ڈگری نہیں ہے۔