پاک افغان طورخم بارڈر کھول دیا گیا، تجارتی سرگرمیاں 27 دن بعد بحال
پاک افغان طورخم بارڈر کھول دیا گیا جس کے بعد بارڈر پر تجارتی سرگرمیاں 27 دن بعد بحال ہوگئیں۔
ڈان نیوز کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے جرگے کے ارکان کے درمیان طویل عرصے سے جاری مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد طورخم بارڈر کراسنگ کو 27 دن بعد دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق طورخم بارڈر پر فلیگ میٹنگ میں تجارت بحالی کا فیصلہ ہوا جس کے بعد 27 دن کی بندش کے بعد تجارت کے لیے سرحد کھول دی گئی۔
علاوہ ازیں، پیدل آمدورفت 2 دن بعد بحال ہو جائے گی، امیگریشن کا عملہ اس وقت بھی موجود ہے لیکن اسکینر خرابی کے باعث مسافروں کی آمدورفت معطل رہے گی، اسکینر پر مرمتی کام ہوگا ٹیکنیکل خرابی دور ہونے کے بعد مسافروں کو جمعہ کے دن اجازت دی جائے گی۔
پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر ضیاالحق سرحدی کا کہنا تھا کہ دونوں جانب تقریبا 5 ہزار کمرشل ٹرک پھنسے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے دونوں اطراف کے تاجروں کو کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
پاکستانی جرگے کے سربراہ سید جواد حسین کاظمی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ سرحد کھولنے کا فیصلہ بدھ کے روز طورخم میں ایک فلیگ میٹنگ میں کیا گیا، فلیگ میٹنگ میں افغان وفد کی نمائندگی ڈپٹی گورنر مولوی عزیز اللہ اور کمشنر مولوی حکمت اللہ نے کی۔
جواد حسین کاظمی کا کہنا تھا کہ افغانستان کی جانب سے فائرنگ سے تباہ ہونے والے پاکستانی کسٹم انفراسٹرکچر کی مرمت کے بعد سرحد اب کارگو گاڑیوں کے لیے کھول دی گئی ہے۔
علاوہ ازیں، 15 اپریل تک فوری جنگ بندی پر بھی اتفاق کیا گیا ہے، دونوں فریقین نے متنازع چیک پوسٹوں کی تعمیر روکنے پر اتفاق کیا۔
دوسری جانب، افغانستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی بختر نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بارڈر کو گاڑیوں اور مریضوں کے لیے کھول دیا گیا ہے جب کہ پیدل چلنے والوں کو جمعہ کو اجازت دی جائے گی۔
پس منظر
واضح رہے کہ 21 فروری کو پاکستانی اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان سرحد کے دونوں جانب تعمیراتی سرگرمیوں پر اختلافات پیدا ہونے کے بعد طورخم بارڈر کراسنگ کے ذریعے لوگوں کی سرحد پار نقل و حرکت اچانک معطل کردی گئی تھی۔
رواں ماہ صورتحال اس وقت مزید خراب ہو گئی تھی جب پاکستان اور افغان طالبان کی افواج کے درمیان سرحد پر فائرنگ کے تبادلے میں 6 فوجیوں سمیت 8 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
متعدد مکانات، ایک مسجد اور کلیئرنگ ایجنٹس کے کچھ دفاتر کو توپ خانے کی گولا باری سے نشانہ بنایا گیا تھا اور سرحد پار فائرنگ کا سلسلہ 3 روز تک جاری رہا تھا۔
اس کے بعد سرحد کے دونوں جانب قبائلی عمائدین اس تعطل کو ختم کرنے کے لیے بات چیت میں مصروف ہوئے۔
پاکستانی جرگے کے ارکان نے اپنے افغان ہم منصبوں کو بتایا کہ سرحد صرف اسی صورت میں کھولی جائے گی جب وہ ’دونوں طرف سرحد کے موجودہ ڈھانچے میں کسی بھی تبدیلی کے بارے میں ایک دوسرے کو آگاہ کرنے کے لیے طے شدہ پروٹوکول اور معاہدوں کی مکمل پاسداری کریں گے‘۔
افغان فریق کو بتایا گیا کہ پاکستان سرحد پار کسی بھی تعمیراتی یا تزئین و آرائش کی سرگرمی کو برداشت نہیں کرے گا، کیونکہ ماضی میں دونوں ممالک کے درمیان یہ فیصلہ اور اتفاق کیا گیا تھا کہ سرحد کے زیرو پوائنٹ کے قریب کوئی اضافی ڈھانچہ نہیں بنایا جائے گا۔
ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ملاقات اور بعد ازاں ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت کے دوران افغان فریق کا ردعمل اور رویہ ’مثبت‘ رہا۔
اس کے بعد سے انہوں نے افغان سرحدی فورسز کو متنازع چیک پوسٹ کی تزئین و آرائش یا تعمیر نو سے گریز کیا تھا، جسے افغان فریق زنگالی پوسٹا کے نام سے پکارتا ہے۔
طورخم میں کسٹم حکام نے کہا ہے کہ سرحد کی بندش سے روزانہ تقریباً 15 لاکھ ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے، کیونکہ افغانستان کو برآمدات رک گئی ہیں، مزید برآں افغانستان سے درآمدات کی معطلی کی وجہ سے 54 کروڑ 50 لاکھ روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔
دریں اثنا طورخم کے دوستی ہسپتال کے ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان سے روزانہ 70 سے 80 مریض آتے ہیں، جو طبی معائنے کے لیے درست ویزے پر پاکستان پہنچتے ہیں۔