ترقیاتی اخراجات میں تعطل کے باوجود ارکان پارلیمنٹ کی اسکیموں کیلئے 96 فیصد فنڈز جاری
رواں مالی سال کے پہلے 8 ماہ (جولائی تا فروری) میں پارلیمنٹیرینز کی اسکیموں کے لیے 96 فیصد رقم کی فوری تقسیم نے سست روی کا شکار ترقیاتی پروگرام کو اچانک تقویت دی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق منصوبہ بندی کمیشن کے سرکاری اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت کُل اخراجات 312 ارب 30 کروڑ روپے ہیں، جو اس سال کے لیے مختص 11 کھرب روپے کا 28.4 فیصد ہے۔
تاہم، پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے پروگرام (ایس اے پی) کے تحت اخراجات، جو پارلیمنٹیرینز کی اسکیموں کا کوڈ نام ہے، مختص کردہ رقم سے کہیں زیادہ ہے، جو ابتدائی طور پر مختص 25 ارب روپے کا تقریباً 140 فیصد اور بعد میں منظور ہونے والے 51 ارب روپے کا تقریباً 70 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔
یہ غیر معمولی اخراجات اسی عرصے کے دوران 600 ارب روپے کے محصولات میں کمی کے پس منظر میں سامنے آئے ہیں، ایس اے پی مختص کرنے کے علاوہ بنیادی پی ایس ڈی پی کا استعمال نمایاں طور پر کم تھا، جو صرف 26 فیصد یا 10 کھرب 5 ارب روپے میں سے 277 ارب روپے تھا۔
اس سال تیزی سے تقسیم کے برعکس، ایس اے پی فنڈز عام طور پر اتنی آسانی سے جاری نہیں کیے جاتے، قانون سازوں کو منظوری حاصل کرنے اور الاٹمنٹ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اکثر ادھر ادھر بھاگنا پڑتا ہے۔
اس عمل میں شامل سینئر سرکاری عہدیدار نے کہا کہ ایس اے پی فنڈ کو دوگنا کر دیا گیا، تقسیم کی منظوری دی گئی اور ’شہباز اسپیڈ‘ کے ساتھ خرچ کیا گیا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ایس اے پی فنڈ کو 50 ارب 77 کروڑ روپے تک بڑھانے اور اتحادی شراکت داروں کے اراکین پارلیمنٹ کو مختص کرنے کی منظوری 9 جنوری کو دی گئی تھی اور تقریباً 96 فیصد فنڈز (48 ارب 64 کروڑ روپے) چند ہفتوں میں جاری کر دیے گئے تھے۔
فروری کے اختتام تک کور ڈیولپمنٹ پورٹ فولیو کا کُل استعمال 2 ماہ سے بھی کم عرصے میں 35 ارب روپے (72 فیصد) تک پہنچ گیا تھا، جب کہ 8 ماہ میں کور ڈیولپمنٹ پورٹ فولیو میں 26 فیصد استعمال ہوا۔
حکام کا کہنا ہے کہ حکومت نے گزشتہ سال اپریل میں سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس کے موقع پر ایس اے پی کے لیے 50 ارب روپے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن بعد میں آئی ایم ایف کی مشاورت سے تیار کیے گئے حتمی بجٹ کے حصے کے طور پر اسے کم کرکے 25 ارب روپے کردیا گیا۔
تاہم نومبر میں نائب وزیر اعظم اسحٰق ڈار کی سربراہی میں اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں اسے دوگنا کر کے 25-2024 کے بجٹ میں تقریباً 50 ارب روپے کر دیا گیا تھا، اسحٰق ڈار نے اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے اس مطالبے کو مسترد کر دیا تھا کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 30 ارب روپے کے فنڈز تکنیکی بنیادوں پر جاری کیے جائیں۔
حکومت نے پی ایس ڈی پی کے لیے پہلے سے نوٹیفائیڈ اصولوں میں بھی نرمی کی تاکہ حکومت سے وابستہ اراکین پارلیمنٹ کو مطمئن کرنے کے لیے فوری تقسیم کو یقینی بنایا جاسکے، یہ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں تقریباً 300 فیصد اضافے اور وفاقی کابینہ میں توسیع کے علاوہ ہے۔
2023-24 کے بجٹ میں اس وقت کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پارلیمنٹیرینز اسکیم کے لیے 91 ارب روپے مختص کیے تھے، اور نگران حکومت کی جانب سے اس کی جگہ لینے سے قبل تقریباً 61 ارب روپے کی تقسیم کی منظوری دی گئی تھی۔
اس کے نتیجے میں مالی سال کے اختتام تک تقریباً 57 ارب روپے استعمال کیے جا سکیں گے۔
پیپلز پارٹی کے دو آئینی عہدیداروں چیئرمین سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے مطالبہ کیا تھا کہ ان 34 ارب روپے کے فنڈز کو اس سال استعمال کیا جائے۔
وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے اسحٰق ڈار کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس کو بتایا تھا کہ حکومت نے پی ایس ڈی پی کے تحت ایس اے پی 25-2024 کے لیے 50 ارب روپے مختص کیے ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ وزارت منصوبہ بندی کی آفیشل ویب سائٹ پر دستیاب پی ایس ڈی پی میں اب بھی متعلقہ اسکیموں کی منظوری کے بغیر ایس اے پی کے لیے 25 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
48 ارب 37 کروڑ روپے میں سے 28 ارب 87 کروڑ روپے پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ کے لیے منظور کیے گئے، اس کے بعد سندھ کے لیے 15 ارب 25 کروڑ روپے، بلوچستان کے لیے 2 ارب 25 کروڑ روپے، خیبر پختونخوا کے لیے ایک ارب 25 کروڑ روپے اور اسلام آباد کے لیے 75 کروڑ روپے کی منظوری دی گئی۔
دریں اثنا گزشتہ مالی سال کے پہلے 8 ماہ میں مجموعی طور پر پی ایس ڈی پی اخراجات 237 ارب روپے رہے، جو کہ مختص 940 ارب روپے کا 25 فیصد ہے۔
وزارت خزانہ کی جانب سے رواں مالی سال کے لیے اعلان کردہ میکانزم کے تحت حکومت کو پہلی سہ ماہی میں مختص بجٹ کا 15 فیصد، دوسری سہ ماہی میں 20 فیصد، تیسری سہ ماہی میں 25 فیصد اور آخری سہ ماہی میں بقیہ 40 فیصد بجٹ جاری کرنا ہوگا۔
فروری کے آخر تک پی ایس ڈی پی کا تخمینہ سالانہ مختص کا تقریباً 52 فیصد یا 572 ارب روپے سے کم نہیں ہونا چاہیے، منصوبہ بندی کمیشن نے اصل میں پہلی 3 سہ ماہیوں کے لیے 631 ارب روپے کی منظوری دی تھی۔
تمام 36 وفاقی وزارتوں، ڈویژنز اور ان کی ایجنسیاں 8 ماہ میں صرف 253 ارب روپے خرچ کر سکیں، جو ان کے 843 ارب روپے کے مختص کردہ فنڈز کا 30 فیصد بنتا ہے، ان فنڈز میں سے تقریباً نصف (125 ارب روپے) جنوری اور فروری میں خرچ کیے گئے۔
مجموعی طور پر 2 بڑے کارپوریٹ اداروں نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) اور نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) نے 8 ماہ میں صرف 59 ارب روپے خرچ کیے، جو ان کے مشترکہ مختص 255 ارب روپے کا تقریباً 23 فیصد ہے، یہاں تک کہ انفرادی بنیادوں پر بھی این ایچ اے نے 49 ارب روپے استعمال کیے، جب کہ اس کا سالانہ حصہ 161 ارب روپے تھا۔
دوسری جانب توانائی کے شعبے نے 10 ارب 60 کروڑ روپے استعمال کیے جو سالانہ مختص 94 ارب 50 کروڑ روپے کا 11 فیصد ہے، اسی طرح ملک کو موسمیاتی آفات کا خطرہ ہونے کے باوجود موسمیاتی تبدیلی ڈویژن نے صرف 47 کروڑ 80 لاکھ روپے خرچ کیے، جو اس کے مختص کردہ 5 ارب 25 کروڑ روپے کا تقریباً 9 فیصد ہے۔
سماجی شعبے میں ایک اور اہم وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی 23 ارب 90 کروڑ روپے کے مختص خطیر فنڈ کے مقابلے میں 4.9 فیصد (ایک ارب 10 کروڑ روپے) استعمال کرنے میں کامیاب رہی۔
سرکاری اعداد و شمار سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ریلوے ڈویژن واحد وفاقی وزارت تھی، جو 21 ارب روپے کے اخراجات کے ساتھ عام استعمال کی حد کو غیر معمولی طور پر چھو سکتی تھی، جو 35 ارب روپے مختص کا تقریباً 60 فیصد ہے۔
اس کے برعکس منصوبہ بندی کمیشن، جو دراصل ترقیاتی پروگرام کا نگہبان ہے، خود صرف 2 ارب روپے خرچ کر سکا، جو بجٹ منظوری کے وقت جمع کیے گئے 21 ارب 40 کروڑ روپے کی خطیر رقم کا تقریباً 15 فیصد ہے۔
اس سے وزارت منصوبہ بندی کی اہلیت کے بارے میں سوالات اٹھتے ہیں جسے ملک بھر میں ترقیاتی فنڈز کے استعمال پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
صوبوں اور خصوصی علاقوں (خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے ضم شدہ اضلاع) مشترکہ طور پر 79 ارب روپے خرچ کرنے کے قابل تھے، جو ان کے سالانہ مختص کردہ 257 ارب روپے کا تقریباً 31 فیصد ہے۔
واٹر ریسورسز ڈویژن، جس کے پاس پی ایس ڈی پی میں سب سے زیادہ 170 ارب روپے مختص تھے، صرف 50 ارب روپے یا 29 فیصد خرچ کر سکا۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن نے پہلے 8 ماہ میں 15 ارب روپے خرچ کیے، جبکہ اس کے سالانہ مختص کردہ فنڈز 61 ارب روپے سے زائد تھے۔
کم از کم 5 وزارتیں 8 ماہ میں کچھ بھی خرچ نہیں کرسکیں، ان میں وزارت تجارت، مواصلات، انسداد منشیات، مذہبی امور اور اسٹریٹجک پلان ڈویژن شامل ہیں، اخراجات کے اس خطرناک انداز کا لوگوں کے معیار زندگی اور معاشی ترقی پر براہ راست منفی اثر پڑتا ہے۔
حکومت نے ابتدائی طور پر پی ایس ڈی پی کے لیے 14 کھرب روپے مختص کیے تھے، لیکن آئی ایم ایف معاہدے کے تحت اس پر نظر ثانی کرکے اسے 11 کھرب روپے کر دیا گیا تھا۔