شرح سود میں کمی اور نئے ویرینٹس کی آمد سے آٹو فنانسنگ میں مزید بہتری
شرح سود میں کمی کے باعث فروری کے اختتام پر آٹو فنانسنگ جنوری کے 241.6 ارب روپے سے بڑھ کر 249 ارب روپے ہوگئی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 8 ماہ کے دوران شرح سود 22 فیصد سے کم ہو کر 12 فیصد پر آنے کے بعد خریدار نئی اور استعمال شدہ گاڑیوں کے لیے بینکوں سے لیز لے رہے ہیں، آٹو فنانسنگ میں بہتری کا رجحان اگست 2024 میں آنا شروع ہوا جب یہ 227.3 ارب روپے تھی جبکہ جون 2022 میں آٹو فنانسنگ 368 ارب روپے کی بلند ترین سطح پر تھی۔
ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے چیف ایگزیکٹو محمد سہیل نے کہا ہے کہ شرح سود میں کمی کے دوران کار فنانسنگ میں اضافہ جاری رہے گا، انہوں نے مزید کہا کہ ’کئی سال بعد ہم گاڑیوں کی فروخت میں تیزی سے بحالی دیکھ رہے ہیں‘۔
کاریں، اسپورٹس یوٹیلٹی وہیکلز (ایس یو ویز)، وینز اور پک اپ کی فروخت پہلے ہی مستحکم ہو رہی ہے اور آنے والے مہینوں میں قیمتوں اور شرح تبادلہ میں استحکام، صارفین کے اعتماد میں بہتری اور نئے ویرینٹس اور ماڈلز متعارف کروانے کی وجہ سے اس میں مزید بہتری کی توقع ہے۔
مالی سال 2025 کے 8 ماہ کے دوران گاڑیوں کی مجموعی فروخت 89 ہزار 770 یونٹس رہی جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے 59 ہزار 700 یونٹس کے مقابلے میں سال بہ سال 50 فیصد زیادہ ہے۔
آنے والے مہینے میں گاڑیوں کی مضبوط فروخت کا ایک اور اشارہ یہ ہے کہ اسمبلرز کی جانب سے سیمی اور کملیپٹ ناک ڈاؤن (سی کے ڈی/ ایس کے ڈی) کٹس کی درآمد مالی سال 2025 کے 8 ماہ میں 23.4 فیصد اضافے کے ساتھ 57کروڑ 50 ڈالر تک پہنچ گئی جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 46کروڑ 60 لاکھ ڈالر تھی۔
پاک-کویت انویسٹمنٹ کمپنی لمیٹڈ کے ہیڈ آف ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ سمیع اللہ طارق کا خیال ہے کہ طلب میں اضافے اور شرح سود میں تیزی سے کمی کی وجہ سے آنے والے مہینوں میں کاروں کی فنانسنگ میں بہتری آئے گی، اس کے علاوہ مقامی اسمبلرز کی جانب سے نئی گاڑیوں کی پیشکش میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
شرح سود میں کمی کے باوجود 30 لاکھ روپے کے قرضے کی حد، ایک ہزار سی سی تک کی گاڑیوں کی ادائیگی کے لیے 5 سال تک کی مدت اور ہزار سی سی سے کم کی گاڑیوں کے لیے ادائیگی کی مدت میں 3 سال کی مدت اور 30 فیصد ڈاؤن پیمنٹ کی شرط کے باعث بہت سے لوگوں کے لیے بینکوں سے قرض حاصل کرنا اب بھی ایک مشکل کام ہے۔
انسائٹ ریسرچ کی رپورٹ کے مطابق انڈس موٹر کمپنی نے گزشتہ ہفتے ایک کارپوریٹ بریفنگ میں کہا تھا کہ کمپنی نے حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ 30 لاکھ روپے کے قرض کی حد ختم کرے اور منصفانہ مسابقت کو فروغ دینے کے لیے درآمدی اور سی کے ڈی یونٹس پر ٹیکسوں اور ڈیوٹیز کو معقول بنائے۔