• KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:41am
  • LHR: Fajr 4:52am Sunrise 6:13am
  • ISB: Fajr 4:56am Sunrise 6:18am
  • KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:41am
  • LHR: Fajr 4:52am Sunrise 6:13am
  • ISB: Fajr 4:56am Sunrise 6:18am

رانی کوٹ: کھلے آسمان تلے ستاروں کے نظارے کا منفرد تجربہ

شائع March 14, 2025
رانی کوٹ میں ستاروں کا نظارہ—جیف: کے اے ایس فیس بُک
رانی کوٹ میں ستاروں کا نظارہ—جیف: کے اے ایس فیس بُک

ایک حقیقت جس پر اکثر افسوس بھی کیا جاتا ہے کہ کراچی والوں کے لیے ویک اینڈز پر تفریح کرنے کے مواقع انتہائی محدود ہیں۔ سمندر کنارے بسے اس شہر کے باسی اکثر لاہور اور اسلام آباد میں مقیم لوگوں کو رشک کی نظر سے دیکھتے ہیں کیونکہ وہ لوگ ویک اینڈز پر پاکستان کے خوبصورت شمالی علاقہ جات کا سفر کرسکتے ہیں۔

تاہم میں اور میری فیملی نے کراچی آسٹرونومرز سوسائٹی (کے اے ایس) کے زیرِ اہتمام رانی کوٹ قلعے میں ستاروں کا نظارہ کرنے کا اعادہ کیا۔ ان کے گزشتہ ٹرپ پر ساتھ جانے والے ایک دوست نے ہمیں اس کا مشورہ دیا تھا۔ کے اے ایس ہر سال اکتوبر سے مارچ کے دوران بلوچستان اور سندھ کے مختلف مقامات پر دوروں کا اہتمام کرتا ہے۔

ان ٹرپس کو ’رتجگا‘ کہا جاتا ہے جس کے معنی رات کو جاگنے سے لیے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے ان ٹرپس میں رات کے اندھیرے میں فلکیات کا نظارہ کیا جاتا ہے۔ ہم جس ٹرپ پر جارہے تھے وہ کے اے ایس کا 71واں رتجگا تھا۔ انہوں نے ان منفرد ٹرپس کا پہلی بار 2008ء میں آغاز کیا۔

ٹرپ میں ہمارے ساتھ 130 افراد تھے۔ اکثریت نے 4 کوسٹرز کے ذریعے سفر کیا جبکہ ہم میں سے کچھ نے اپنی گاڑیوں سے سفر کیا۔ بعض اوقات اس سفر کا دلچسپ حصہ اتفاق ہوتا ہے۔ راستے میں ہم نے دیکھا کہ اسکول کی ایک پرانی دوست بھی ہمارے ساتھ محوِ سفر تھی۔ وہ بھی ہماری گاڑی میں سوار ہوگئی اور پھر ہم نے اپنا سفر پرانے وقت کو یاد کرنے میں گزارا۔

رانی کوٹ کی جانب سفر

رانی کوٹ قلعہ جسے دیوارِ چین کی طرح دیوارِ سندھ کہا جاتا ہے، جامشورو ضلع میں واقع ہے۔ یہ حیدرآباد سے دو گھنٹوں کی مسافت پر ہے جبکہ کراچی سے 4 گھنٹوں کی ڈرائیو ہے۔ راستہ کافی آسان ہے۔ سب سے پہلے کراچی-حیدرآباد سپر ہائی وے پر سفر کرکے این 55 ہائی وے جانا ہے جسے انڈس ہائی وے بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہائی وے سے ایک سڑک نکلتی ہے جس پر 45 منٹ کے سفر کے بعد آپ رانی کوٹ پہنچ سکتے ہیں۔

ہم یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ قلعے کی جانب جاتی سڑک حال ہی میں بنائی گئی ہے اور اب یہ سڑک ہموار ہے۔ دورانِ سفر ہم نے اپنے اردگرد وسیع بنجر علاقہ دیکھا اور میری اہلیہ نے نشاندہی کی کہ یہ علاقہ ونڈ اور سولر توانائی کے لیے بہترین ہے۔ پنجاب کے مقابلے میں سندھ کی زیادہ تر زمین زراعت کے لیے موزوں نہیں تو اس بنجر زمین کو قابلِ تجدید توانائی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جس کے لیے ایکڑوں زمین کی ضرورت ہوتی ہے۔

رانی کوٹ سندھ
رانی کوٹ سندھ

جب ہم رانی کوٹ پہنچے تو کے اے ایس کی ٹیم نے ہمیں دن کے شیڈول کے حوالے سے آگاہ کیا جس میں رانی کوٹ کی تاریخ کا بھی مختصر ذکر کیا گیا۔ 1993ء میں پاکستان نیشنل کمیشن برائے ہونیسکو کی جانب سے رانی کوٹ کو عالمی ثقافتی ورثے کے طور پر نامزد کیا گیا تھا اور تب سے ہی یہ یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔

رانی کوٹ کی تاریخ کافی دلچسپ ہے۔ جیسا کہ کے اے ایس کی ٹیم نے ہمیں بتایا، اس کی تاریخ کے حوالے سے بہت سے متضاد بیانیے بھی پائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سندھ میں اسلام کی آمد سے صدیوں پہلے اس قلعے کو تعمیر کیا گیا تھا جبکہ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ 19ویں صدی میں تالپوروں نے یہ قلعہ تعمیر کروایا تھا۔ اس قلعے کی ساخت نے بھی بہت سے سوالات پیدا کیے ہیں۔ کیوں ایک بیابان علاقے میں مٹی کے درمیان 31 کلومیٹر پر محیط قلعوں کے اس سلسلے کو تعمیر کیا گیا؟ یہ قلعہ کس چیز کی حفاظت کررہا تھا؟

شہر کی صوتی آلودگی سے دور ایک شام

شام میں ہم نے ایک قلعے کے سفر کا فیصلہ کیا۔ جیسے ہی ہم نے سفر شروع کیا تو ہمیں اپنی شہری زندگی سے متضاد، فضا میں سکون کا احساس ہوا۔ شہر کی فضا کے برعکس یہاں کی ہوا تازہ اور ٹھنڈی تھی جبکہ رانی کوٹ میں شور بھی نہیں تھا جس نے اس تجربے کو دلچسپ بنایا۔

ہم نے رانی کوٹ کے اندر واقع ایک چھوٹے قلعے میری کوٹ کا دورہ کیا جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ میر شاہی خاندان کا رہائشی قلعہ تھا۔ اس مرکزی قلعے کا پیدل بھی دورہ کیا جاسکتا ہے۔ تاہم ہمیں مشورہ دیا گیا کہ سورج ڈھلنے سے پہلے ہم اپنے کیمپوں کی جانب واپس لوٹ جائیں کیونکہ یہاں تیزی سے مکمل اندھیرا چھا جاتا ہے۔

آلودگی سے دور رانی کوٹ کے آسمان کا دامن ستاروں سے بھرا ہے—تصویر: ابوبکر صدیق شیخانی/کے اے ایس فیس بک
آلودگی سے دور رانی کوٹ کے آسمان کا دامن ستاروں سے بھرا ہے—تصویر: ابوبکر صدیق شیخانی/کے اے ایس فیس بک

واپس لوٹنے کے بعد ہم نے اپنے خیموں میں ڈیرا ڈالا جوکہ آرام دہ تھے اور اس میں دو لوگوں کے لیے کافی جگہ تھی۔ رات کو زیادہ آرام دہ نیند کے لیے زیادہ بہتر یہی ہے کہ آپ اپنے ساتھ ایک اضافہ سلیپنگ بیگ اور لحاف لے کر جائیں۔

سورج غروب ہونے کے بعد تمام بتیاں بجھا دی گئیں جبکہ منتظمین نے واضح ہدایات دیں کہ سفید لائٹس نہ جلائی جائیں تاکہ روشنی کی آلودگی کم سے کم ہو اور ستاروں کا نظارہ کرنے کا تجربہ بھی بہترین رہے۔ ہم نے اپنے موبائل فون کی ٹارچز پر بھی سرخ ٹیپ لگایا۔ اس اندھیرے نے ایڈوینچر کے احساس کو مزید تقویت دی۔

آسمان کی چھتری تلے

جیسے ہی اندھیرے کے سائے گہرے ہوئے تو ستاروں کے نظارے کا آغاز ہوا۔ یہاں ایک وسیع علاقے پر دریاں بچائی گئی تھیں تاکہ ہم سب وہاں بیٹھ یا لیٹ سکیں۔ اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ ستاروں سے بھرے آسمان کے نیچے لیٹنا واقعی ایک تھراپی تھی اور اس تجربے کا میں سب کو مشورہ دوں گا۔ یہ ہمارے زیادہ کام کرنے والے دماغ کو آرام دیتا ہے اور آپ کو دور دور تک کہکشاؤں کے عجائبات کو دیکھنے کا پُرسکون احساس دیتا ہے۔

رات کو آسمان ستاروں اور سیاروں سے جگمگا رہا تھا۔ کراچی کی فضائی آلودگی میں ہم بامشکل ہی ستارے دیکھ پاتے ہیں لیکن یہاں رانی کوٹ میں آسمان کا دامن ستاروں سے بھرا ہوا تھا۔

کے اے ایس کی ٹیم نے تین بڑے ٹیلی اسکوپس نصب کر رکھے تھے جن سے ہم چند سیاروں کا زیادہ قریب سے جائزہ لے سکتے ہیں۔ ٹیم نے رات کو لیزر لائٹس کے ذریعے ہمیں رات کو آسمان کے حوالے سے گائیڈ کیا۔ انہوں نے سیاروں اور ستاروں کے درمیان فرق کے حوالے سے روشناس کیا کہ جو چمکتے ہیں وہ اتارے ہوتے ہیں جبکہ وہ زیادہ نہیں چمکتے وہ سیارے ہوتے ہیں۔ سیاروں کی اپنی روشنی نہیں ہوتی بلکہ یہ سورج کی روشنی کو منعکس کرتے ہیں اور یہ ستاروں سے زیادہ زمین کے قریب ہوتے ہیں۔

نارتھ اسٹار کا پتا لگانے کے لیے بہت سے مختلف ذرائع ہمیں دکھائے گئے اور جب ہم رات کے کھانے کے لیے ایک گھنٹے کے وقفے کے بعد واپس آئے تو نارتھ اسٹار وہ واحد ستارہ تھا وہ اپنی جگہ پر ہی موجود تھا جبکہ زمین کی حرکت کی وجہ سے دیگر ستاروں اور سیاروں نے اپنی جگہ تبدیل کرلی تھی۔ ہم نے اورائن نیبولا کا نظارہ بھی کیا جو کہکشاں میں زمین کے نزدیک ترین ستارہ بنانے والا خطہ ہے۔

بڑے ٹیلی اسکوپ پر ہم نے وینس، سرخ سیارہ مریخ، مشتری اور اس کے 4 چاند (مجموعی طور پر اس کے 95 چاند ہیں) بھی دیکھے۔ ہم نے 7 سسٹرز کو بھی دیکھا جوکہ Pleiades اسٹار کلسٹر میں ستاروں کا ایک گروپ ہے۔

سیارہ زحل کی ٹیلی اسکوپ کے ذریعے موبائل سے لی گئی تصویر—ابوبکر صدیق شیخانی/کے اے ایس فیس بُک
سیارہ زحل کی ٹیلی اسکوپ کے ذریعے موبائل سے لی گئی تصویر—ابوبکر صدیق شیخانی/کے اے ایس فیس بُک

رات گئے ستاروں کا نظارہ جاری رہا۔ تاہم میں نے آدھی رات کے بعد کیمپ میں واپس جانے اور بچوں کے ساتھ سونے کا فیصلہ کیا۔ ٹرپ میں شامل دیگر افراد نے خوبصورت آسمان کا مشاہدہ جاری رکھا۔ اگلے روز علی الصبح ہم نے ناشتہ کیا اور کراچی واپسی کے سفر کا آغاز کیا۔

یہ رتجگا ایک پُرلطف اور افزودہ تجربہ تھا جبکہ اہل و احباب کے ساتھ ایک مختصر ٹرپ کے لیے بہترین انتخاب ہے۔ یہ نہ صرف شہر سے چند گھنٹوں کی دوری پر ہے بلکہ یہ شہر کے جھمیلوں سے دور ایک بالکل مختلف دنیا ہے۔

اس سفر نے ہمیں کائنات کی وسعت کو حقیقی معنوں میں محسوس کرنے کا موقع فراہم کیا جو ہم انسانوں کی بڑی انا کو عاجزی کا احساس دلاتا ہے۔ اکتوبر میں جب دورے دوبارہ شروع ہوں گے تو ہماری امید ہے کہ ہم ممکنہ طور پر اگلی بار کے اے ایس کے ساتھ بلوچستان یا دیگر مقامات کا بھی دورہ کریں گے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

فرخ کریم خان

لکھاری مطالعے کے شوقین ہیں۔ ان کا ایک مضمون حال ہی میں انتھولوجی ہوم ItsComplicated# میں شائع ہوا تھا۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 15 مارچ 2025
کارٹون : 14 مارچ 2025