• KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 4:35pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 4:40pm
  • KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:03pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 4:35pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 4:40pm

امریکا: فلسطین کے حامی مسلمان طلبہ کو ملک بدری کا خدشہ، عدلیہ سے امید لگالی

شائع March 13, 2025
کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز 2024 میں مسلم مخالف واقعات کی 8 ہزار 658 سے زائد شکایات ملیں — فوٹو:رائٹرز
کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز 2024 میں مسلم مخالف واقعات کی 8 ہزار 658 سے زائد شکایات ملیں — فوٹو:رائٹرز

امریکا میں گزشتہ سال فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں میں شریک رہنے والے مسلمان طلبہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے غیر ملکی شہریوں کو ملک بدر کرنے کی کوششوں کے بارے میں فکرمند ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ طالب علم اب امید کر رہے ہیں کہ امریکی عدالتی نظام انہیں سیاسی سرگرمی کے خلاف انتظامیہ کے وسیع تر کریک ڈاؤن کے حصے کے طور پر ممکنہ جلاوطنی سے بچائے گا، ان کی امیدوں کو اس وقت تقویت ملی جب ایک وفاقی جج نے کولمبیا یونیورسٹی کے گریجویٹ اور فلسطینیوں کے حامی معروف کارکن محمود خلیل کی ملک بدری کو عارضی طور پر روک دیا۔

امریکی ڈسٹرکٹ جج جیسی ایم فرمان نے بدھ کو ہونے والی سماعت سے قبل حکومت کو محمود خلیل کو ملک بدر کرنے سے روکنے کا حکم جاری کیا۔

سابق صدر براک اوباما کی جانب سے مقرر کردہ جج نے کہا کہ درخواست پر فیصلہ آنے تک عدالت کے دائرہ اختیار کو برقرار رکھنے کے لیے درخواست گزار کو اس وقت تک امریکا سے نہیں نکالا جائے گا جب تک کہ عدالت کا کوئی اور حکم نہیں آجاتا۔

گرین کارڈ رکھنے والے محمود خلیل کو فلسطین کے لیے احتجاج میں ملوث غیر ملکی شہریوں کو نشانہ بنانے کی وفاقی کوشش کے حصے کے طور پر گرفتار کیا گیا تھا۔

میری لینڈ کے ترک دیانت سینٹر میں ایک چھوٹے سے گروپ میں اس مسئلے پر گفتگو کرنے والے ایک طالب علم تزین نے خوف اور غیر یقینی کے اجتماعی جذبات کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ خوفزدہ ہیں، لیکن امید ہے کہ امریکی عدالتی نظام انہیں بچا لے گا۔’

شمالی امریکا کی سب سے بڑی مساجد میں سے ایک کی میزبانی کرنے والا دیانت سینٹر (جو مفت افطار کا اہتمام بھی کرتا ہے) غیر رسمی سماجی اجتماعات کے لیے اہم جگہ بن گیا ہے، اگرچہ مسجد کے کیفے ٹیریا کے باہر طلبہ کے اس چھوٹے سے گروپ میں سے کسی نے بھی ملک بدری کے نوٹس موصول ہونے کا اعتراف نہیں کیا، لیکن بہت سے لوگ اسی طرح کے حالات میں دوسروں کے بارے میں جانتے ہیں۔

یونس نے اپنا پورا نام نہ بتانے کو ترجیح دیتے ہوئے کہا کہ لوگ ڈرے ہوئے ہیں، کوئی بھی ملک بدر نہیں ہونا چاہتا، ہمیں امید ہے کہ عدالتیں ہماری مدد کریں گی۔

ایک اور طالب علم اشرف نے کہا کہ امریکی آئین کی پہلی ترمیم آزادی اظہار کی ضمانت دیتی ہے، ہم جانتے ہیں کہ ہماری عدالتیں اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لیتی ہیں، لیکن بڑھتے ہوئے خوف کی وجہ سے بہت سے طلبہ احتجاج میں اپنی شرکت کے بارے میں خاموش ہیں، حالانکہ مظاہروں کے دوران اور بعد میں انہیں وسیع پیمانے پر حمایت ملی تھی۔

ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں کے جواب میں طلبہ نے منظم ہونا شروع کر دیا، منگل کے روز شکاگو یونیورسٹی کے درجنوں طلبہ اور اساتذہ نے محمود خلیل کی حمایت میں ریلی نکالی اور نیویارک میں ہونے والے مظاہروں میں شامل ہوئے، پروفیسر کیلی میدوف کا کہنا ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے دوستوں اور ساتھیوں کو ملک بدر کیا جائے۔

محمود خلیل کی رہائی کے لیے ایک آن لائن پٹیشن پر 5 لاکھ افراد نے دستخط کیے تھے، جس میں امریکی ایجنسیوں اور یونیورسٹیوں دونوں سے مداخلت کی اپیل کی گئی تھی۔

تاہم، ٹرمپ انتظامیہ نے ’یہود دشمنی کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹاسک فورس‘ قائم کی ہے جس نے کولمبیا، جارج واشنگٹن اور ہارورڈ جیسی یونیورسٹیوں کا دورہ کیا، اس کے علاوہ انتظامیہ نے حماس کی حمایت کرنے والے غیر ملکی شہریوں کے ویزے منسوخ کرنے کے لیے ’مصنوعی ذہانت کی مدد سے کیچ اینڈ ری ٹینڈر‘ اقدام بھی متعارف کرایا ہے۔

ٹرمپ نے عوامی طور پر آئی سی ای کے اقدامات کی حمایت کی اور محمود خلیل کو ’بنیاد پرست غیر ملکی حماس حامی طالب علم‘ قرار دیا اور دیگر احتجاجی طلبہ کے خلاف بھی اسی طرح کے اقدامات کا انتباہ کیا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ کولمبیا اور دیگر یونیورسٹیوں میں ایسے کئی طلبہ ہیں جو دہشت گردی کی حمایت، یہود اور امریکا مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے حماس کی حمایت کرنے والوں کے ویزے یا گرین کارڈ منسوخ کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا، جس کے نتیجے میں انہیں ملک بدر کیا جائے گا۔

دریں اثنا کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (سی اے آئی آر) نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ 2024 میں مسلم مخالف اور عرب مخالف واقعات کی ریکارڈ تعداد سامنے آئی ہے۔

گروپ کو 8 ہزار 658 شکایات موصول ہوئیں جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 7.4 فیصد زیادہ ہیں، جو 1996 میں سی اے آئی آر کے اعداد و شمار مرتب کرنے کے بعد سے سب سے زیادہ واقعات ہیں۔

یونیورسٹی آف کنیکٹیکٹ میں طلبہ اور عملے نے عوامی سماعت کے دوران نفرت انگیز تقاریر سے متعلق مجوزہ قانون سازی کی مخالفت کی۔

یونیورسٹی کی مسلم اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کی رکن ریم سود نے متنبہ کیا کہ اس بل سے طلبہ کی نگرانی میں اضافہ ہوسکتا ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بل خوف، دھمکانے اور سنسرشپ کا کلچر پیدا کرے گا۔

کارٹون

کارٹون : 31 مارچ 2025
کارٹون : 30 مارچ 2025