• KHI: Fajr 5:03am Sunrise 6:19am
  • LHR: Fajr 4:26am Sunrise 5:48am
  • ISB: Fajr 4:29am Sunrise 5:53am
  • KHI: Fajr 5:03am Sunrise 6:19am
  • LHR: Fajr 4:26am Sunrise 5:48am
  • ISB: Fajr 4:29am Sunrise 5:53am

ہٹلر کا انٹرویو

شائع August 3, 2012

نریندرا مودی ۔ فائل تصویر اے پی

حیرت انگیز طور پر جب میں نے انیس سو تیئس میں جارج سلویسٹر ویرک کا اڈولف ہٹلر کا تاریخی انٹرویو پڑھنا مکمل کیا، اسی لمحے ہمارے ساتھی صحافی کا نریندرا مودی سے انٹرویو کا معاملہ ہر طرف میڈیا پر چھا گیا ۔

ایک اردو روزنامے کے معروف مسلمان مدیر شاہد صدیقی پر اس انٹرویو کے ذریعے ہندوستان کے مسلمانوں کو مایوس کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔

صدیقی ایک ایسے آدمی کا کیسے انٹرویو لے سکتا ہے جسے اس کی اپنی مسلمان برادری مردوں، عورتوں اور بچوں کے قاتل سمجھتی ہے؟صدیقی کو یاد کروایا گیا کہ آخر مودی نے قتل کیے جانے والے مسلمانوں کی  لاشوں کو دکھا دکھا کر ہی تو دو ہزار دو میں گجرات سے انتخابات جیتے تھے ۔

اتر پردیش میں اپنی سیاسی کامیابی کے لیے مسلمان ووٹ بنک پرانحصار کرنے والی سماج وادی پارٹی نے فوراً ہی صدیقی کو اپنی جماعت سے نکال باہر کرنے کا اعلان کر ڈالا۔ وہ ایک زمانے میں راجیہ سبھا میں ایم پی ہوا کرتے تھے۔ اس کہانی میں پس منظر میں اور بھی کچھ حقائق ہیں جن کا ذکر ہم کبھی بعد میں کریں گے۔

پچھلے چند مہینوں سے زیادہ تر ذرائع ابلاغ خاموشی سے مودی کی حمایت کرتا آ رہا ہے ،شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ میڈیا کے کاروباری مالکان مودی کی پرو-  بزنس سیاست سے منسلک ہیں۔ منموہن سنگھ کو اچانک بھلا دیا گیا ہے۔  ٹی وی چینلز نے اس انٹرویو کے ذریعے مودی کو مسلمانوں کا دشمن نہیں بلکہ ہمدرد ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

صدیقی کو اس انٹرویو کے بعد یہ ثابت کرنے میں بہت دقت پیش آئی کہ انہوں نے مودی سے ‘مشکل’ سوالات پوچھے تھے اور یہ کہ وہ اب بھی ان کی سیاست کے مخالف ہیں۔

مودی نے اپنے خلاف لگے الزامات پر کوئی نئی بات نہیں کی۔  صدیقی نے مودی سے ان کی نگرانی میں قتل کئے جانے والے معصوم لوگوں کے قتل پر معافی مانگنے کو کہا۔ اگر یہ ایک مشکل سوال تھا تو مودی نے بڑی صفائی سے اسے دوسری جانب موڑ دیا۔انہوں نے کہا کہ ‘اگر’ انہیں معاملے قصوروار پایا جائے تو وہ پھانسی پر لٹکنے کو ترجیح دیں گے بجائے اس کے کہ وہ ایک ایسے جرم کے لئے معذرت خواہ ہوں جس کا انہوں نے ارتکاب ہی نہیں کیا۔

مشہور اور بدنام زمانہ افراد کا انٹرویو لینا صحافیوں کی ذندگی کا اہم مقصد اور کارنامہ ہوتا ہے ۔ ان کے بہت سے مختلف مقاصد ہوسکتے ہیں مگریہ ان کا حق ہےکہ وہ ایسے افراد سے ملیں جن کا نظرئیے معنی رکھتے ہوں۔

ماضی کے مشہور شخصیات کے انٹرویوز لینے کے برعکسی اوریانا فلاسی کی اصل وجہ شہرت ان کا خامینائی سے انٹرویو تھا۔ اسی طرح ڈیوڈ فروسٹ نے اپنے ڈوبتے ہوئے کیرئرکو سہارا دینے کیلئے معزول رچرڈ نکسن کو رقم دے کر ان کا انٹرویو کیا۔

میں بھی اپنی صحافتی زندگی میں کئی مشہور شخصیات کا انٹرویو کر چکا ہوں مگرجس انٹرویو نے مجھے بھت عرصے تک پریشان کئے رکھا وہ متحدہ عرب امارات میں راسل خایما کی ایک جیل میں قید بھارتی درزی کا تھا۔

عبد العزیز پارکر نے مجھ سے اپنی بےگناہی کا رونا رویا تھا۔ اس نے مجھے وہ خط  بھی دکھایا جو اس نے اندرا گاندھی کو مدد حاصل کے لئے لکھا تھا۔  بد قسمتی سے جیل کے اہلکاروں کو انٹرویو کے متن کا پتہ چل گیا اور انہوں نے خبر سامنے آنے سے پہلے ہی پارکر کو فائرنگ سکواڈ کے حوالے کر دیا۔ انتہائی سادہ الفاظ میں کہوں تو میں اس واقع کو اب تک نہیں بھلا سکا ۔

صحافی اکثرو بیشتر اپنے انٹرویوز کے ذریعے لوگوں کی ساکھ بنانے یا بگاڑنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں مگر شاذ و نادر ہی وہ اپنے پیشہ ورانہ وقار کو داؤ پر لگاتے ہوئے کسی مقصد کا حصہ بننے کو تیار ہوتے۔

اگر یہ کہا جائے کہ صدیقی نے ہندوستان میں اب تک ملزم ٹھہرائے جانے والے مودی کے انٹرویو کے ذریعے اس کی عوامی رائے کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے تو یہ الزام صحافت کیلئے نقصان دہ ہو گا۔

مودی کے مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہونے سے زیادہ عجیب بات ان کی ہندوستان کے متوسط طبقے میں مقبولیت ہے۔ یہ ایک فاشسٹ لہر کے ابھرنے کی اہم نشانی ہے اور  یہ دوسری آمرتیوں کے مقابلے میں زیادہ مشہور ہے۔

ممبئی حملے اس بات کی مثال ہیں کہ کس طرح ہندوستان کا مرڈوک طرز کا میڈیا مودی کے انتہائی قوم پرست موقف کی حمایت میں ان کے ساتھ کھڑا ہے ۔ مشہور ٹی وی میزبانوں نے خوشی خوشی ٹاک شوز میں دکھائے جانے والے ردعمل کو قوم پرستی کا نام دیا۔ اس ردعمل میں پاکستان پر کارپٹ بمباری، ہندوستانی پارلیمنٹ کی برطرفی سے لے کر وزیر اعظم کے طور پر کاروباری شخصیت رتن ٹاٹا کی تقرری شامل تھی۔

مودی کے انٹریو پر واپس آتے ہیں، کسی کا احساس جرم کو بےنقاب کرنے کا انٹرویو لینے کے علاوہ اور بہت سے طریقے ہیں۔ اس موقع پر گجرات میں منفرد طرز کا ہونے والا تہلکا سٹنگ آپریشن ذہن میںآتا ہے۔ انہوں نے بہت عمدگی سے منظم قتل عام میں مبینہ طور پر ملوث مودی کے قریبی ساتھیوں اور پارٹی رہنماؤں سمیت اہم کھلاڑیوں کو پکڑ لیا جو یا تو خود مورود الزام ٹھہرائے جا رہے تھے یا دوسروں کی طرف انگلیاں اٹھا رہے تھے۔

خلاصہ یہ کہ پرجوش صحافت فاشزم کو جڑ سے نہیں اکھاڑ سکتی۔  آخری بار جب کسی نے اسے ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش کی تھی تو نتیجتاً طویل اور خونی دوسری عالمی جنگ سامنے آئی۔

زمین پر تعینات خون کی بازی کھیلتے  فوجی عملی طور پرکسی قسم کے سیاسی کور سے محروم ہوتے ہیں۔  شبہ یہ ہے کہ مودی کا نام وزیر اعظم کے عہدے کیلئے سامنے آنے میں کانگریس کا فائدہ لگتا ہے کیونکہ وہ  ان کی بدنامی کو کیش کرنے کیلئےتیار نظر آتی ہے۔

پارٹی کے اندازے کے مطابق گجرات کا یہ امیدوار ووٹوں کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کا سبب بنے گا نتیجتا راہول گاندھی کو ممکنہ طور پرمنموہن سنگھ کے ایک سیکولر متبادل کے طور پر پیش کیا جا سکے گا۔

عام انتخبات دو ہزار چودہ میں ہونگے اور اس سے قبل مودی کوخود کو اس بڑی نشست کے اہل ثابت کرنے کیلیے گجرات میں سخت امتحان کا سامنا کرنا ہوگا۔ ریاست اپنی پانچ سالہ اسمبلی کی مدت کے اختتام پر اس سال دسمبر میں انتخابات کے مرحلے سے گزرے گی اور ایسا نہیں لگتا کہ ان انتخابات میں کانگریس مودی کیلیے مشکلات کھڑی کر سکے گی تاہم خود مودی کے اپنے مقامی ساتھی رہنماؤں نے انہیں مشکلات میں ڈالنے کا تہیہ کر رکھا ہے ۔

جاوید نقوی نئی دہلی میں ڈان اخبار کے نمائیندے ہیں۔

ڈان اخبار
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 17 ستمبر 2024
کارٹون : 16 ستمبر 2024