بلوچستان زلزلہ: دو امدادی ہیلی کاپٹروں پر حملہ، ہلاک شدگان کی تعداد 359 ہوگئی
کوئٹہ: بلوچستان میں زلزلے سے متاثرہ ضلعے آواران اور دیگر علاقوں تک امدادی سامان لے جانے والے دو ہیلی کاپٹروں پر شرپسندوں نے فائرنگ کی ہے۔ جمعہ کے روز فرنٹیئر کور ( ایف سی) کے ترجمان نے اس واقعے کی تصدیق کی ہے۔
ایف سی کے ترجمان، خان واسع نے کہا ہے کہ عسکریت پسندوں نے مشکے میں لینڈنگ کرنے والے دو امدادی ہیلی کاپٹروں پر فائرنگ کی ہے ۔ یہ ہیلی کاپٹر زلزلہ متاثرین کیلئے امدادی سامان لے جارہے تھے۔
' اس (حملے) میں چھوٹے ہتھیار استعمال کئے گئے تھے،' انہوں نے کہا۔ واسع نے مزید کہا کہ امدادی کارروائیوں میں مصروف ایف سی اہلکاروں نے جب اس حملے کا جواب دیا تو دہشتگرد فرار ہوگئے۔
' اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ '
واضح رہے کہ یہ دو دن میں ہیلی کاپٹروں پر دوسرا حملہ ہے۔ اس بار عسکریت پسندوں نے جن ہیلی کاپٹروں کو نشانہ بنایا ہے ان میں وزیرِ اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک، وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، اور وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان موجود تھے جو آواران کے دورے پر آرہے تھے۔ آواران زلزلے سے سب سے ذیادہ متاثر ہونے والا ضلع ہے جہاں منگل کو آنے والے ہولناک زلزلے میں اب تک 359 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
آواران پہنچنے کے بعد وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا کہ بلوچ بھائیوں کی خدمت کیلئے حاضر ہیں اور لوگوں کو ٹینٹ، خوراک اور پانی پہنچنانے کے انتظامات کررہے ہیں اورمکمل بحالی تک وفاقی حکومت چین سے نہیں بیٹھے گی۔
دوسری جانب وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ آواران کے غریب عوام کو اپنے پیروں پر کھڑا کریں گے۔
دوسری جانب پاکستان ایئرفورس کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاک فضائیہ اب تک سی ون تھرٹی طیارے سے 20 ہزار کلوگرام خوراک گراچکی ہیں جن میں تیار کھانے کے پیکٹ بھی شامل ہیں۔
پاکستانی حکام کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان محمد جان بلیدی نے کم از کم 359 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ زلزلے کے دوران 619 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
بلیدی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ آوران سے جمعرات کو مزید چھ لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ زلزلے کے باعث کمیونیکیشن کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے جسکے باعث زندہ رہ جانے والے افراد تک پہنچنے میں دشواری کا سامنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا 'مجھے خدشہ ہے کہ ملبے کے نیچے مزید لاشیں ہوسکتی ہیں'۔
دوسری جانب نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ اور دیگر اداروں اور ممالک کی جانب سے پیشکش کے باوجود ریسکیو کے کام میں ملکی وسائل کا ہی استعمال کیا جائے گا۔
این ڈی ایم اے چئرمین میجر جنرل محمد سعید علیم نے کہا ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء کراچی سے متاثرہ علاقوں میں تقسیم کی جارہی ہیں اور اس کام کو ایف سی اور فوجی اہلکار سرانجام دے رہے ہیں۔
کوئٹہ: پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں رواں ہفتے منگل کی سہ پہر آنے والے شدید زلزلے نے صوبے کے دیہاتی علاقوں میں وسیع پیمانے پر تباہی مچاہی ہے جہاں پر لوگوں کے گھر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے ہیں، جبکہ امدادی کارکن ہزاروں کی تعداد میں زخمیوں اور بے گھر افراد کی مدد کرنے میں مصرف ہیں۔
بلوچستان حکومت نے گزشتہ روز بدھ کو کہا ہے کہ زلزلے سے ضلع آواران اور کیچ میں 328 افرد ہلاک اور تقریباً تین لاکھ متاثر ہوئے ہیں اور خدشہ ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
تاہم ملک میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے نگران ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ باوجود اس کے کہ اقوامِ متحدہ کی ایجنسیوں، عالمی ڈونرز اور کچھ ملکوں کی جانب سے مدد فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی ہے، لیکن ہم اس ضمن میں اپنے موجودہ وسائل کو ہی استعمال کریں گے۔
این ڈی ایم اے کے چیئرمین میجر جنرل محمد سعید علیم کا کہنا ہے کہ اگرچہ کچھ دوست ممالک اور عالمی ڈونرز کی جانب سے بھی مدد کی پیشکش کی گئی ہے، لیکن زلزلے کے بعد آواران اور کیچ میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اُس سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس کافی وسائل موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی سے این ڈی ایم اے کا ریلیف سامان دونوں متاثرہ اضلاع کے لیے روانہ کردیا گیا تھا جس کو فوج، فرنٹیئر کور اور مقامی انتظامیہ کے ذریعے متاثرہ افراد میں تقسیم کیا گیا۔
تقریباً پندرہ سو فوجی اہلکار، ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف ایف سی کے ساتھ مل کر مسلسل ریلیف اور امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔
صوبائی حکومت کی جانب سے ریلیف کی اشیاء اور امدادی کاموں کے لیے 180 ملین روپے جاری کردیے ہیں۔
دوسری جانب امکان ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان آج لندن سے اپنا دورہ مکمل کرنے کے بعد واپس پاکستان پہنچیں گے۔
چیف سیکرٹری بابر یعقوب فتح اور سدرن کمانڈ کے کمانڈر لفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوا نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور وہاں پر تباہی کا جائزہ لینے کے لیے فضائی جائزہ بھی لیا۔
امدادی کارکنوں نے آواران اور کیچ کے مختلف علاقوں میں تباہ شدہ مکانات کے ملبے سے مزید لاشوں کو نکالا، جبکہ زخمی افراد کو علاج کے لیے ہسپتال لے جایا گیا۔
لیکن امدادی کارکن اب بھی بہت سے دور دراز علاقوں میں نہیں پہنچ سکے ہیں، جہاں سے اطلاعات ہیں لوگ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور ہزاروں افراد اپنے مکانات کے تباہ ہوجانے کی وجہ سے کھلے آسمان کے تلے بیٹھے ہیں۔
گرم موسم میں لوگوں کو پانی کی قلت کا بھی سامنا ہے، کیونکہ پانی سپلائی کے والے منصوبوں کو نقصان پہنچا اور زلزلے کی وجہ سے پائپ لائینیں بھی تباہ ہوگئی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے سفیر برائے انسانی فلاح و بہبود ڈاکٹر عبداللہ المتوق نے گزشتہ روز کہا کہ اقوام متحدہ بلوچستان میں زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں ریلیف اور امدادی کامیوں میں پاکستانی حکومت کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔
اپنے پاکستانی دورہ کے آخر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ہم نے اقوامِ متحدہ کے انسانی فلاح و بہبود کے رابطہ کاروں سے کہا ہے کہ اگر پاکستان کی جانب سے مدد کی اپیل کی جاتی ہے، تو وہ تیار رہیں۔
منگل کی شام صوبہ بلوچستان کے ضلع آواران میں 7.7 شدت ک زلزلہ آیا جس کے باعث صوبے میں تاحال آفٹر شاکس محسوس کیے جا رہے ہیں، حال ہی میں بدھ کو آنے والے حالیہ جھٹکے کی ریکٹر اسیل پر شدت 4.7 محسوس کی گئی۔
حکام نے اب تک زلزلے کے نتیجے میں 328 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے جہاں صرف آواران میں اب تک کم از کم 208 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ امدادی کاموں میں مشکلات کے باعث صوبے کے دور دراز علاقے میں ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
ترجمان بلوچستان حکومت جان محمد بلیدی نے ڈان ڈاٹ کام کو زلزلے کے نتیجے میں 328 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کری ہے جبکہ اس دوران 440 افراد زخمی بھی ہوئے۔
ان کا کہنا تھا 'مجھے خدشہ ہے کہ ہلاکتوں میں مزید اضافہ ہوجائے گا'۔
انہوں نے مزید کہا کہ زلزلے کی وجہ سے کمیونیکیشن کا نظام بری طرح متاثر ہوگیا ہے جسکے باعث ریسکیو اہلکار تاحال آواران نہیں پہنچ سکے ہیں۔

اس سے قبل بلیدی نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ زلزلے سے چھ اضلاع آواران، کیچ، گوادر، پنجگور، چاغی اور خضدار کے علاقے اور یہاں رہائش پذیر تین لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ ترکی اور ایران نے بلوچستان میں زلزلے سے متاثرہ افراد کی امداد کی پیشکش کی ہے۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان نے تسلیم کیا کہ ضلع کیچ اور آواران میں زلزلے سے متاثرہ ہزاروں افراد کو شدید مشکلات کا سامنا ہے جبکہ امدادی کارکنوں کو بھی مواصلاتی نظام متاثر ہونے کے باعث کارروائیوں میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔
بلیدی نے کہا کہ ریسکیو ٹیمیں لاشیں نکالنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن ان کی ترجیح زخمیوں کو جلد از جلد اسپتال پہنچانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں طبی سہولیات کی شدید کمی محسوس ہو رہی ہے اور مقامی اسپتالوں میں زخمیوں کے علاج کے لیے کوئی انتظام نہیں، ہم شدید زخمیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے کراچی اور دیگر اضلاع میں منتقل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسی کے سربراہ عبدالطیف کاکڑ نے بتایا کہ ضلع کیچ میں 30 افراد ہلاک ہوئے، ایک اور آفیشل نے بھی کیچ میں ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔
زلزلے سے بچنے والے ایک خوش قسمت رحمت اللہ محمد حسانی نے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال آواران سے ڈان ڈاٹ کام کو فون پر بتایا کہ یہاں کوئی نہیں اور مریض مر رہے ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد تک فراہم نہیں کی جا رہی۔
حسانی نے مزید بتایا کہ یہاں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف تک موجود نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شدید زلزلے کے نتیجے میں مٹی سے بنے گھر تباہ ہو گئے اور خدشہ ہے کہ ابھی بھی لوگوں کی بڑی تعداد ملبے تلے دبی ہوئی ہے۔
پیرا میڈیکل اسٹاف کے ایک رکن نذر محمد نے بتایا کہ ڈسٹرکٹ اسپتال آواران میں 70 زخمیوں کو طبی امداد کے لیے لایا گیا ہے، یہاں سرجری کا کسی قسم کا سامان نہیں اور متاثرین کو صرف ابتدائی طبی امداد فراہم کر رہے ہیں۔
پاکستان آرمی نے زلزلہ متاثرین کی امداد کے لیے 10 میڈیکل اسٹاف اور ایک ہزار فوجی روانہ کر دیے ہیں اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ متاثرہ گاؤں ترتائی میں ایک میڈیکل سینٹر بھی قائم کر دیا ہے۔

آواران کی آبادی 21 ہزار اسکوائر کلو میٹر تک پھیلی ہوئی ہے اور اقوام متحدہ کی ڈیزاسٹر ایجنسی کے مطابق زلزلے کے مرکز سے 50 کلو میٹر کے رقبے میں 60 ہزار سے زائد افراد رہائش پذیر ہیں جن میں سے اکثر کے گھر مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔
آواران کے سینئر آفیشل عبدالرشید بلوچ نے بتایا کہ ریسکیو اہلکار ملبے تلے دبی لاشوں اور زندہ بچ جانے والے افراد کو نکالنے کے لیے رات بھر کام کرتے رہے۔
انہوں نے بتایا کہ ضلع کے 90 فیصد سے زائد مکانات تباہ ہو چکے ہیں اور مٹی سے بنے تقریباً تمام گھر تباہ ہو چکے ہیں۔
منگل کی شام ساڑھے چار بجے کے قریب کراچی، حیدرآباد، کوئٹہ اور سندھ و بلوچستان کے دیگر علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے جس سے شہریوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔
محکمہ موسمیات کے مطابق زلزلے کی شدت 7.7 تھی اور اس کا مرکز بلوچستان کا علاقہ خاران تھا۔
اس کے علاوہ ہندوستانی دارالحکومت نئی دہلی میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے جبکہ احمد آباد میں لوگ خوفزدہ ہو کر گھروں اور دفاتر سے باہر نکل آئے۔
یاد رہے کہ پاکستان میں 2005 میں 7.6 شدت کا زلزلہ آیا تھا جس کا مرکز کشمیر تھا، مذکورہ زلزلے میں کم از کم 73 ہزار افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو گئے تھے۔
صوبائی حکومت نے زلزلے کے بعد آواران میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے جبکہ امریکی جیولوجیکل سروے نے منگل کو ریڈ الرٹ جاری کرتے ہوئے بھاری جانی نقصان کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
ایران کے ریڈ کریسنٹ نے زلزلے سے کسی قسم کے جانی نقصان کی اطلاع نہیں دی۔
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے چھوٹا ترین صوبہ ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے کے دوران صوبے میں شدت پسندی کے واقعات تواتر سے رونما ہوئے جن میں اہل تشیع اقلیتی برادری ہزارہ کو نشانہ بنایا گیا، ان حملوں میں سے اکثر کی ذمے داری طالبان یا ان سے منسلک گروپوں نے قبول کی تھی۔
صوبے میں 2004 سے علیحدگی پسند تحریکوں کا آغاز بھی ہو گیا جہاں باغیوں نے صوبے کے وسائل میں زیادہ منافع کا مطالبہ کر دیا تھا۔

متاثرہ علاقے کے افراد اپنے تاثرات، تصاویر اور ویڈیوز اس ای میل ایڈریس پر بھیج کر شیئر کر سکتے ہیں۔ talktous@dawn.com
تبصرے (1) بند ہیں