اسلام آباد: طالبات پر یونیورسٹی میں جینز پہننے پر جرمانہ
اسلام آباد: نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کی انتظامیہ نے خواتین طالبعلموں کو یہ تاکید کی ہے کہ وہ ”دوپٹہ“اوڑھیں اور ذرائع کے مطابق ان کے یونیورسٹی کے احاطے میں ”جینز“ پہنے پر پابندی عائد کردی ہے۔
لیکن دوسری جانب نسٹ کی انتظامیہ نے اس رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی جانب سے طالب علموں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مہذب لباس پہن کر آئیں۔
یونیورسٹی کے نوٹس بورڈ پر لگائے گئے ایک نوٹس کے مطابق گیارہ طالبعلموں پر مختلف وجوہات کی بنا پر جرمانہ کیا گیا، جس میں سگرٹ نوشی اور لیبارٹری میں کھانا پینا شامل ہے۔ زیادہ سے زیادہ سات خواتین طالب علموں پر دوپٹہ نہ اوڑھنے پر یا جینز اور ٹائٹس پہنے پر جرمانہ کیا گیا۔
ایک تحریری ثبوت جس پر نسٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن عبدالناصر کے دستخط موجود ہیں، سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ خواتین طالبعلموں پر جینز اور ٹائٹس پہننے اور دوپٹہ نہ اوڑھنے پر پانچ سو روپے سے ایک ہزار روپے تک کا جرمانہ کیا گیا۔
اس تحریری ثبوت کے مطابق آر اے ، جو بی بی اے کی ایک طالبعلم ہیں، پر ایک ہزار روپے کا جرمانہ جینز پہننے پر کیا گیا، اور ایس ایم جو بی بی اے کی ہی ایک طالبعلم ہیں، کو ٹائٹس پہنے پر پانچ سو روپے کا جرمانہ کیا گیا۔
دیگر پانچ طالبعلموں میں زیڈبی، ایچ اے، اے ٹی، اے بی اور ایس ایم، سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ دوپٹہ نہ اوڑھنے پر ایک ہزار روپے سے پانچ سو روپے تک کا جُرمانہ ادا کریں۔
ان طالبعلوں کو سترہ ستمبر کو چیک کیا گیا تھا، اور انہوں نے دوپٹہ نہیں اوڑھا ہوا تھا۔
فیکلٹی کے ایک رکن کے مطابق نسٹ اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کی تشکیل کی اجاز ت نہیں دیتی، اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا کہ فیکلٹی کے اراکین میں سے کوئی بھی اس معاملے پر تبصرہ نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے تمام انتظامی عہدوں پر فوجی کے ریٹائرڈ آفیسروں کی تعیناتی کی وجہ سے یونیورسٹی کا ماحول بہت سخت ہوگیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ”خواتین اور مرد طالبعلموں کو ایک ساتھ بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے، اور اس کی خلاف ورزی پر جرمانہ کیا جاتا ہے۔ اساتذہ اور طالبعلم جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے انتظامیہ کی مرضی کے خلاف کچھ بھی کیا تو انہیں نکال دیا جائے گا یا معطل کردیا جائے گا۔
ایک اور فیکلٹی ممبر جو یونیورسٹی کے راولپنڈی کیمپس میں کام کرتے ہیں، نے کہا کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کی اعلیٰ سطح کے لوگ کشادہ دل ہیں، لیکن نچلے درجے کے افسران کا رویہ بہت سخت ہے، اور وہ یونیورسٹی کو کسی ملٹری اکیڈمی کی مانند چلا رہے ہیں۔
موضوعِ بحث:
نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) یہ معاملہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے جڑواں شہروں کے نوجوان طبقے میں بہت زیادہ زیر بحث ہے۔وہ موبائل فون کے ذریعے ایک دوسرے کو میسیج بھیج رہے ہیں، اور سوشل میڈیا نیٹ ورک پراپنے تبصرے پوسٹ کررہے ہیں۔
ایک طالب علم نے ٹوئٹر پر پوسٹ کیا ”یہاں ایک علیحدہ کیفے ہے، جہاں لڑکے پانچ بجے کے بعد جاسکتے ہیں، اور علیحدہ کیفے لڑکیوں کے لیے ہے، اپنی گفتگو کو چھپائیں۔“
ایک اور طالبعلم نے ٹوئٹ کیا: ”واہ بھئی! کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ نسٹ طالبان کا مرکز رہ چکا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ میں نے فیس نہیں جمع کرائی تھی۔“
ایک طالبعلم نے لکھا: یہ نئے پروریکٹر ہیں، جو اپنے ساتھ اس قسم کے شاندار ضابطے لے کر آئے ہیں۔ اس سے پہلے یہ قابلِ برداشت تھا۔
نسٹ کے ترجمان ارشاد راؤ سے تعلقات عامہ کے افسر سید رضا علی کے ذریعے رابطہ کیا گیا، لیکن اس معاملے پر کوئی ردعمل ظاہر کرنے سے انکار کردیا۔
سید رضا علی نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے یہ نوٹس دیکھا تھا، لیکن وہ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے، اس لیکے کہ انتظامیہ اس طرح کی چیزوں کو میڈیا ونگ کے ساتھ شیئر نہیں کرتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ”جہاں تک میں جانتا ہوں کہ انتظامیہ نے طالبعلموں کو رسم ورواج کے مطابق لباس پہننے کی ہدایت کی ہے، اور اس کی خلاف ورزی کی صورت میں ان پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔میڈیا ونگ اس معاملے کو بدھ کے روز دیکھے گا۔“
ریکٹر کے پرسنل اسٹاف آفیسر کرنل محسن نے کہا کہ طالبعلموں کو اجازت ہے کہ وہ کسی بھی قسم کا لباس پہنیں۔
تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ طالبعلموں کو نامناسب لباس پہننے کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”یونیورسٹی کے احاطے میں شارٹس پہن کر آنے کی اجازت نہیں ہے۔ جہاں تک حجاب کا تعلق ہے، یہ والدین کی مرضی پر منحصر ہے۔“
جب کرنل محسن سے جرمانے کے نوٹس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں نہیں جانتے۔
تبصرے (9) بند ہیں