یوکرینی صدر کا یورپ میں پرتپاک استقبال، زیلنسکی معاہدہ کریں یا استعفیٰ دیں، امریکا
یوکرین کے صدر کا یورپ میں پرتپاک استقبال کیا گیا، تاہم امریکا کی جانب سے زیلنسکی کو معاہدہ کرنے یا مستعفی ہونے کے دباؤ کا سامنا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے یوکرین پر روسی حملے کے بارے میں لندن میں بحرانی مذاکرات کی میزبانی کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ یورپ کی سلامتی کو ’ایک نسل میں ایک بار‘ آنے والے لمحات کا سامنا ہے۔
یوکرین کے لیے سیکیورٹی گارنٹی کے اہم سوال پر 18 اتحادی جمع ہوئے، یہ اجتماع اس وقت مزید اہم ہوگیا تھا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے یوکرینی ہم منصب ولادیمیر زیلنسکی کو وائٹ ہاؤس میں غیر معمولی طور پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
یوکرین اور یورپی ممالک کے سامنے زیلنسکی کے ساتھ بیٹھے اجلاس کے میزبان کیئر اسٹارمر نے کہا کہ ’یہ یورپ کی سلامتی کے لیے ایک نسل میں ایک بار کا لمحہ ہے، اور ہم سب کو آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے یوکرین کے صدر سے کہا کہ ’امید ہے کہ آپ جانتے ہوں گے کہ ہم سب آپ کے اور یوکرین کے عوام کے ساتھ ہیں، اس میز پر موجود ہر کوئی آپ کے ساتھ ہے، جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوجاتا۔‘
زیلنسکی کو اسٹارمر، کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اور نیٹو کے سربراہ مارک روٹ سمیت 18 دیگر سرکردہ رہنماؤں میں سے کچھ نے گلے لگایا، جب کہ اس دوران مظاہرین نے یوکرین کی حمایت میں برطانوی وزیراعظم کی رہائش گاہ کے باہر ریلی نکالی۔
یہ مناظر جمعے کے روز واشنگٹن میں ٹرمپ کے ساتھ زیلنسکی کی غیر معمولی طور پر گرما گرم ملاقات کے بالکل برعکس تھے، جہاں امریکی صدر نے ان پر تنقید کرتے ہوئے ان پر روس کے ساتھ امن کے لیے ’تیار‘ نہ ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔
’مغرب کو تقسیم کرنے سے گریز کریں‘
لندن میں اس اجلاس سے قبل خطاب کرتے ہوئے کیئر اسٹارمر نے کہا کہ کوئی بھی اوول آفس کے تصادم جیسے مناظر نہیں دیکھنا چاہتا، ہمیں ایک ایسا راستہ تلاش کرنا ہوگا کہ ہم سب مل کر کام کر سکیں، 3 سال تک خونی لڑائی ہوئی ہے۔
اسٹارمر نے ’بی بی سی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب ہمیں دیرپا امن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
اطالوی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ ڈاؤننگ اسٹریٹ میں اسٹارمر سے ان کے گھر میں ملیں تو انہوں نے کہا کہ ’یہ بہت اہم ہے کہ ہم اس خطرے سے بچیں جو مغرب کو تقسیم کرتا ہے۔‘
جہاں یوکرین کے اتحادی ان بڑھتے ہوئے خدشات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے پختہ عزم کا اعادہ کر رہے ہیں کہ ٹرمپ، روس کے ساتھ مذاکرات میں کیف کو مختصر طور پر فروخت کرنے والے ہیں، وہیں واشنگٹن کے اعلیٰ حکام نے اتوار کے روز مشورہ دیا کہ اگر امن معاہدہ طے پاتا ہے تو زیلنسکی کو مستعفی ہونا پڑ سکتا ہے۔
قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نے ’سی این این‘ کو بتایا کہ ’ہمیں ایک ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو ہمارے ساتھ معاملات طے کر سکے، بالآخر روسیوں سے نمٹ سکے اور اس جنگ کو ختم کر سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اور اگر یہ واضح ہو جائے کہ صدر زیلنسکی کے ذاتی محرکات یا سیاسی محرکات اس ملک میں لڑائی کے خاتمے سے مختلف ہیں، تو میرے خیال میں ہمارے سامنے ایک حقیقی مسئلہ ہے۔‘
زیلنسکی معاہدے میں رکاوٹ؟
جہاں یورپی رہنما یوکرین کے ساتھ کھڑے نظر آئے، وہیں ریپبلکن حکام نیوز چینلز کے پروگرامز میں یہ سوال اٹھاتے نظر آئے کہ جب تک زیلنسکی موجود ہیں کیا روس کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو سکتا ہے؟
ایوان نمائندگان کے اسپیکر مائیک جانسن کا کہنا تھا کہ ’یا تو زیلنسکی ہوش میں آئیں اور شکریہ ادا کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر بات کریں، یا کسی دوسرے کو ایسا کرنے کے لیے یوکرین کی قیادت کرنے کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میرا مطلب ہے، یہ یوکرینی شہریوں پر منحصر ہے کہ وہ اس کا پتا لگائیں، لیکن ہمیں صدر زیلنسکی کی ضرورت ہے کہ وہ جو ضروری ہے کریں۔‘
سینیئر ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ خطرناک حد تک روس کو گلے لگانے کے قریب پہنچ چکے ہیں، ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کرس مرفی کا کہنا تھا کہ ’وائٹ ہاؤس کریملن کا بازو بن چکا ہے،‘ سی این این سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ امریکا خود کو ڈکٹیٹروں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
تاہم سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے زور دے کر کہا کہ وائٹ ہاؤس پیوٹن کے روس کے بارے میں واضح ہے، یہاں کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر رہا کہ ولادیمیر پیوٹن کو اس سال امن کا نوبیل انعام دیا جائے گا۔
روبیو نے کہا کہ امن کے حصول کے لیے پہلا قدم فریقین کو مل کر بات چیت پر مجبور کرنا ہے، آپ اس وقت تک جنگ ختم نہیں کر سکتے جب تک کہ دونوں فریق مذاکرات کی میز پر نہ آجائیں۔
امریکی سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ میں آپ سے وعدہ نہیں کر رہا ہوں کہ یہ ممکن ہے، آپ کو یہ نہیں بتا رہا کہ اس کا 90 فیصد امکان ہے، میں کہہ رہا ہوں کہ اگر ہم انہیں مذاکرات کی میز پر نہ لائے تو یہ صفر فیصد ہے۔