• KHI: Fajr 5:26am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:53am Sunrise 6:14am
  • ISB: Fajr 4:57am Sunrise 6:20am
  • KHI: Fajr 5:26am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:53am Sunrise 6:14am
  • ISB: Fajr 4:57am Sunrise 6:20am

ایف بی آر شارٹ فال کے باوجود ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب بڑھانے کیلئے پُراعتماد

شائع February 13, 2025
— فائل فوٹو: اے پی پی
— فائل فوٹو: اے پی پی

ان خدشات کے باوجود کہ ایف بی آر کی ٹیکس وصولی رواں مالی سال کے لیے 129 کھرب 70 ارب روپے کے ہدف سے کم رہ سکتی ہے، اعلیٰ ٹیکس اتھارٹی آئی ایم ایف کے جاری پروگرام کے مطابق ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کو 10.6 فیصد تک بڑھانے کے ہدف کے حصول کے لیے پراُمید ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پہلی اور دوسری سہ ماہی میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب بالترتیب 9.6 فیصد اور 10.8 فیصد ریکارڈ کیا گیا، ایف بی آر حکام کا اندازہ ہے کہ تیسری سہ ماہی میں یہ تناسب 10.6 فیصد سے کچھ کم رہے گا لیکن چوتھی سہ ماہی میں 11 فیصد سے تجاوز کر جائے گا۔

ایف بی آر کے ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ’مجموعی طور پر ہمیں یقین ہے کہ ہم پورے سال کے لیے ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کا ہدف حاصل کر لیں گے‘۔

آئی ایم ایف معاہدے کے تحت حکومت فنڈنگ پروگرام کے 37 ماہ کے دوران ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کم از کم 3 فیصد بڑھا کر 13 سے 13.3 فیصد کرنے کے لیے پرعزم ہے، یہ تناسب، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کوئی حکومت ٹیکس کے ذریعے معاشی وسائل کو کتنی موثر طریقے سے متحرک کرتی ہے، رواں مالی سال 8.77 فیصد ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، جو مالی سال 22 کے 9.22 فیصد سے کم ہے۔

ایف بی آر کا اندازہ ہے کہ 129 کھرب 70 ارب روپے کے محصولات کے ہدف میں تقریباً 5 کھرب روپے کا فرق ہوگا، جس کے لیے گزشتہ مالی سال کی 96 کھرب روپے کی اصل وصولی کے مقابلے میں 40 فیصد اضافے کی ضرورت ہے۔

سب سے زیادہ ٹیکس جمع کرنے والے ادارے کو پہلے ہی جولائی تا جنوری 7 ماہ کے دوران محصولات کی وصولی کے ہدف میں 468 ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا ہے جبکہ گزشتہ سال کے اسی عرصے کے دوران حاصل ہونے والے 51 کھرب 43 ارب روپے کے مقابلے میں تقریباً 26 فیصد اضافے کے ساتھ 64 کھرب 90 ارب روپے ہو گئے ہیں۔

موجودہ صورتحال کی بنیاد پر کچھ ٹیکس تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ حکومت ہدف سے تقریباً 10 کھرب روپے پیچھے رہ سکتی ہے، اس کمی کی بڑی وجہ درآمدات سے ٹیکس وصولی میں کمی، بڑی صنعتوں کی سست نمو اور حالیہ مہینوں میں افراط زر میں تیزی سے غیر متوقع کمی ہے۔

حکومت کو توقع ہے کہ خود مختار ترقی، نفاذ کے اقدامات اور اضافی پالیسی اقدامات سے 36 کھرب 60 ارب روپے کی اضافی آمدنی ہوگی۔

ایف بی آر حکام کا کہنا تھا کہ ٹیکسوں میں جس قسم کی نمو کو ہدف بنایا جارہا ہے اس میں جی ڈی پی میں 3 فیصد اضافہ، بڑی صنعتوں میں 3.5 فیصد کی حقیقی نمو، افراط زر کی شرح 12.9 فیصد اور درآمدات میں تقریباً 17 فیصد اضافے کی بنیاد پر محصولات میں 18 کھرب 60 اضافہ روپے کا خود مختار اضافہ متوقع ہے۔

ٹیکس محصولات میں باقی اضافہ مزید پالیسی اقدامات یا نئے ٹیکسوں اور ٹیکس کی شرحوں اور سلیب میں اضافے (13 کھرب 40 ارب روپے) اور بہتر نفاذ (451 ارب روپے) سے متوقع تھا، ایف بی آر کا مقصد 71 کھرب روپے کے متوقع ٹیکس گیپ (سیلز ٹیکس میں 34 کھرب روپے، انکم ٹیکس میں 20 کھرب روپے اور خودمختار ترقی سے متعلق 12 کھرب روپے) کا کم از کم نصف حصہ بہتر نفاذ اور ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے پچھلے سال کے 59 کھرب روپے سے پورا کرنا ہے۔

عہدیدار کو یقین تھا کہ آئی ایم ایف کو وصولی کے فرق پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا کیونکہ ’وہ ٹیکس ہدف میں متوقع کمی کے ذمہ دار معاشی عوامل سے آگاہ ہیں‘، ان کا کہنا تھا کہ ’اس خلا کو پر کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ نئے پالیسی اقدامات یعنی اضافی ٹیکس کے اقدامات متعارف کرائے جائیں جنہیں وزیر اعظم پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں‘۔

ایف بی آر پہلے ہی ٹیکس ٹرانسفارمیشن پلان تیار کرچکا ہے جس کا مقصد ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا، ’نان فائلرز‘ کی کیٹیگری کو ختم کرنا اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو بڑھانے کے لیے نئے تادیبی اقدامات کے ذریعے تعمیل اور نفاذ کو بہتر بنانا ہے۔

ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ منصوبے میں مجوزہ اصلاحات کے ذریعے چند سالوں میں اس تناسب کو 18 فیصد تک بڑھایا جا سکتا ہے، ایف بی آر کے مطابق کم از کم ٹیکس کی شرحوں میں نمایاں اضافے کے باوجود 2018 سے 2024 کے درمیان افراط زر کو ایڈجسٹ کرنے والی ٹیکس وصولی میں صرف 0.3 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

شہباز شریف حکومت نے حال ہی میں ایف بی آر کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ٹیکس قوانین میں ترمیم کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا، جس کا مقصد ٹیکس دہندگان اور ٹیکس چوروں دونوں پر اخراجات پر وسیع پیمانے پر پابندیاں عائد کرنا ہے تاکہ تعمیل کو فروغ دیا جا سکے۔

بل میں ٹیکس چوری اور کم رپورٹنگ پر جرمانہ عائد کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے جبکہ تعمیل کو مضبوط بنانے کے لیے متعدد نفاذ کے اقدامات کی نشاندہی کی گئی ہے۔

ایف بی آر ٹرانسفارمیشن پلان، جس میں ’اہل‘ اور ’نااہل‘ افراد کی ٹیکس فائلرز اور نان فائلرز کی حیثیت پر منحصر ان کی نئی شرائط متعارف کرائی گئی ہیں، میں رئیل اسٹیٹ اور کاروں کی خریداری، بینک اکاؤنٹس برقرار رکھنے، اسٹاک میں سرمایہ کاری وغیرہ پر سخت پابندیاں عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

اس کے علاوہ ٹیکس دہندگان کو جائیداد اور گاڑیوں کی خریداری پر 30 فیصد سے زائد رقم خرچ کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے، ایف بی آر حکام کو شبہ ہے کہ مجوزہ قانون میں جائیداد اور گاڑیوں کی خریداری سے متعلق تادیبی دفعات کو پارلیمنٹ سے ختم کیا جا سکتا ہے۔

حکام کا کہنا تھا کہ ’نئی قانون سازی پر بحث سے، ہم محسوس کرتے ہیں کہ ارکان پارلیمنٹ کا ماننا ہے کہ یہ دفعات، خاص طور پر رئیل اسٹیٹ کی خریداری پر پابندی، معیشت کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے اور مرحلہ وار نافذ کی جانی چاہیے، لہٰذا ان اقدامات میں چند ماہ کی تاخیر ہوسکتی ہے‘۔

کارٹون

کارٹون : 14 مارچ 2025
کارٹون : 13 مارچ 2025