مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی 27 سال بعد دہلی میں انتخابات جیتنے میں کامیاب
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 27 سال بعد نئی دہلی میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کرلی۔
ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ مکمل نتائج کا اعلان ہونا ابھی باقی ہے، لیکن بی جے پی کو نئی دہلی اسمبلی کی 70 میں سے 48 نشستیں جیتنے کی امید ہے، نئی دہلی میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے حکومت کرنے والی عام آدمی پارٹی (اے اے پی) 22 نشستیں ہی لے سکی۔
نریندر مودی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ یہ ہماری ضمانت ہے کہ ہم دہلی کی ترقی میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، لوگوں کے لیے مجموعی معیار زندگی کو بہتر بنائیں گے۔
انتخابات میں نتائج سے کہیں زیادہ سخت مقابلہ تھا، کیوں کہ بی جے پی کو 46 فیصد اور عام آدمی پارٹی کو 44 فیصد ووٹ ملے۔
1947 میں تقسیم ہند کے بعد نقل مکانی کرنے والے زیادہ تر پنجابی خاندانوں پر مشتمل ریاست کے خوشحال علاقوں میں بی جے پی اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہی۔
کم آمدنی والے علاقے، جن میں سے زیادہ تر اتر پردیش، بہار اور مغربی بنگال کے کچی آبادیوں میں رہنے والے شہری شامل ہیں، زیادہ تر عام آدمی پارٹی کے ساتھ رہے۔
کانگریس پارٹی ایک بھی سیٹ جیتنے میں ناکام رہی، لیکن کم از کم 10 حلقوں میں عام آدمی پارٹی کی جیت کے امکانات کو نقصان پہنچایا۔
بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی کی ناکامی سے توقع کی جارہی ہے کہ گزشتہ سال کے عام انتخابات کے بعد مودی کی پارٹی کو تقویت ملے گی، جہاں پارٹی نے اپنی اکثریت کھو دی تھی۔
سابق وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال، منیش سسودیا، سوربھ بھاردواج اور درگیش پاٹھک جیسے عام آدمی پارٹی کے بڑے لیڈراپنے حلقوں میں شکست سے دو چار ہوئے، جہاں کانگریس نے ان کی ناکامی میں کردار ادا کیا۔
نیوز ویب سائٹ دی وائر کے مطابق ہفتے کے روز ہونے والے انتخابات کے نتائج میں کانگریس کا کوئی اثر نہیں رہا، لیکن اس کا ووٹ شیئر 2020 میں 4.26 فیصد سے بڑھ کر تقریباً 6.40 فیصد ہو گیا۔
عام آدمی پارٹی کی جیت زیادہ تر دلتوں کے لیے مخصوص نشستوں اور کم آمدنی والے گروپوں کی ایک بڑی آبادی والے علاقوں میں ہوئی، جنہیں ’جھگی جھونپڑی سیٹیں‘ کہا جاتا ہے۔
اس کے برعکس، بی جے پی نے بیرون دہلی کے نیم شہری حلقوں اور وسطی دہلی کی نسبتاً خوشحال نشستوں پر اپنی سب سے بڑی کامیابی حاصل کی، جو سابق زرعی جاٹ اور گجر آبادی، متوسط طبقے کے رائے دہندگان اور سرکاری ملازمین کے درمیان پارٹی کی منظم رسائی کی کامیابی کی عکاسی کرتی ہے۔
نئی دہلی کے انتخابات میں طبقاتی فرق کبھی اتنا واضح نہیں ہوا تھا۔
بی جے پی کی جیت کے امکانات کو وفاقی اور نئی دہلی کی حکومتوں میں ایک ہی پارٹی کے برسراقتدار ہونے کے امکان سے بھی تقویت ملی، بی جے پی نے منظم طریقے سے انتظامی اور مالی طور پر عام آدمی پارٹی حکومت کے اختیارات میں میں کمی کی تھی۔
اس نے سب سے پہلے سپریم کورٹ کے 2023 کے فیصلے کو منسوخ کیا، جس میں نئی دہلی کی منتخب حکومت کو قومی راجدھانی علاقہ دہلی کی حکومت (جی این سی ٹی) ایکٹ میں ترمیم کرکے بااختیار بنایا گیا تھا۔
ان ترامیم نے نئی دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر (ایل جی) کو مؤثر طریقے سے بااختیار بنایا، جسے وفاقی حکومت نے اس طرح مقرر کیا تھا کہ نئی دہلی کی منتخب حکومت اپنی پسند کے افسران کی تقرری یا تبادلہ کرنے کا اختیار کھو چکی تھی۔
دوسری بات یہ کہ جب عام آدمی پارٹی نے میونسپلٹی کو بی جے پی سے چھین لیا تھا، تو سپریم کورٹ نے ایل جی کو میونسپل کمیٹیوں میں ’ایلڈرمین‘ کی تقرری کا خصوصی اختیار دیا تھا، جس کی منظوری کے بغیر منتخب کونسلر یکطرفہ طور پر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے تھے۔
اس سے دہلی میونسپل کارپوریشن (ایم سی ڈی) میں عام آدمی پارٹی کے امور پر اثر پڑا، کیوں کہ اس کے میئر 5 کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کے کسی بھی پروجیکٹ کی منظوری نہیں دے سکے۔
مرکز میں برسراقتدار پارٹی نے عام آدمی پارٹی کو دہلی ایکسائز پالیسی معاملے میں بھی مصروف رکھا، کیوں کہ عام آدمی پارٹی اس وقت کے وزیر اعلی ٰ کجریوال سمیت اپنے سب سے بڑے رہنماؤں کے جیل جانے کے درمیان اپنے گروپ کو متحد رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔