مصر: اخوان المسلمین کی تمام سرگرمیوں پر عدالتی پابندی عائد

قاہرہ: مصر کی ایک عدالت نے پیر کے روز اخوان المسلمین کی ملک میں تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی ہے، اور گروپ کے فنڈ کو منجمند کرنے کا حکم دیا ہے، جس کا مقصد معزول صدر محمد مرسی کی اسلامی تحریک کو کمزور کرنا ہے۔
جج محمد سید نے کہا کہ عدالت نے اخوان المسلمین تنظیم اور اس کی غیر سرکاری تنظیم اور اس سے منسلک تمام تنظیوں پر پابندی عائد کر دی ہے اور اب وہ کسی قسم کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکیں گی۔
عدالت نے حکومت کو اخوان المسلمین کے فنڈز اور اثاثے منجمد کرنے کا حکم دیا ہے اور فنڈز کا انتظام سنبھالنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
فوجی حمایت یافتہ حکومت نےاسلامی گروہ کے خلاف شدید کریک ڈاؤن کا آغاز کردیا ہے جس کے اراکین کی تعداد دس لاکھ کے قریب ہوگی۔
تین جولائی کو فوج کی جانب سے محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے خلاف مرسی کے حامیوں کے مظاہرں کے دوران سیکیورٹی فورسز نے سینکڑوں کو ہلاک اور ہزاروں کو گرفتار کیا تھا۔
دو ہزار گیارہ میں حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد المسلمین نے پارلیمان اور صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اور اس سے تعلق رکھنے والے محمد مرسی مصر کے نئے صدر بنے تھے۔
فوجی سربراہ جنرل عبدالفتح السیسی نے عرب دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والی ریاست میں ایک سیاسی بحران پیدا کیا، اخوان المسلمین کا اصرار ہے کہ فوج نے طاقت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا ہے۔
عدالتی فیصلے کے باعث اخوان المسلمون کے ارکان کا زیر زمین چلے جانے کا امکان ہے اور خدشہ ہے کہ شاید اس کی نوجوان قیادت حکومت کے خلاف اسلحہ اٹھالے گی۔
دوسری جانب اخوان المسلمین نے اس کی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کیے جانے پر عدالتی فیصلے پر سخت تنقید کی ہے اور اسے سیاسی بدنیتی قرار دیا ہے۔
معزول صدر محمد مرسی کے اسلامی گروپ نے اپنی آفیشرز ٹیوٹر اکاؤنٹ پر کہا ہے کہ تنظیم کے تحلیل ہونے کے بعد بھی تنظیم ہمیشہ میدان پر رہے گی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اخوان المسلمین مصری معاشرے کا حصہ ہے اور سیاسی بدنیتی پر مبنی عدالتی فیصلے اس کو تبدیل نہیں کر سکتے۔











لائیو ٹی وی