• KHI: Zuhr 12:41pm Asr 4:28pm
  • LHR: Zuhr 12:12pm Asr 3:43pm
  • ISB: Zuhr 12:17pm Asr 3:43pm
  • KHI: Zuhr 12:41pm Asr 4:28pm
  • LHR: Zuhr 12:12pm Asr 3:43pm
  • ISB: Zuhr 12:17pm Asr 3:43pm

آرمی چیف نے کالعدم ٹی ٹی پی کی موجودگی، سرحد پار حملوں کو افغانستان کیساتھ کشیدگی کی وجہ قرار دے دیا

شائع January 14, 2025
—فوٹو: آئی ایس پی آر
—فوٹو: آئی ایس پی آر
—فوٹو: آئی ایس پی آر
—فوٹو: آئی ایس پی آر

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ افغانستان سے صرف فتنہ خوارج کی وہاں موجودگی اور سرحد پار سے پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے پر اختلاف ہے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر ) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق آرمی چیف نے پشاور کا دورہ کیا، اس دوران خیبر پختونخوا کے سیاسی قائدین سے بات چیت کی۔

ترجمان پاک فوج کے مطابق سپہ سالار نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں کوئی بڑے پیمانے پر آپریشن نہیں کیا جا رہا اور نہ ہی فتنہ خوارج کی پاکستان کے کسی بھی علاقے میں عملداری ہے، صوبے میں صرف انٹیلی جنس کی بنیاد پر ٹارگٹڈ کارروائی کی جاتی ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق جنرل عاصم منیر نے سوال کیا کہ کیا فساد فی الارض، اللّٰہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ نہیں ہے؟ ریاست ہے تو سیاست ہے، خدا نخواستہ ریاست نہیں تو کچھ بھی نہیں، سب کو بلا تفریق اور تعصب دہشت گردی کے خلاف یک جا ہوکر کھڑا ہونا ہوگا، جب متحد ہو کر چلیں گے تو صورت حال جلد بہتر ہو جائے گی۔

بیان میں کہا گیا کہ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ انسان خطا کا پتلا ہے، سب غلطیاں کرتے ہیں لیکن ان غلطیوں کو نہ ماننا اور ان سے سبق نہ سیکھنا اُس سے بھی بڑی غلطی ہے۔

ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ سپہ سالا نے مزید کہ پاک فوج کی پالیسی صرف اور صرف پاکستان ہے، عوام اور فوج کے درمیان ایک خاص رشتہ ہے، اس رشتے میں کسی خلیج کا جھوٹا بیانیہ بنیادی طور پر بیرون ملک سے ایک مخصوص ایجنڈے کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پر سب پارٹیوں کا اتفاق حوصلہ مند ہے مگر اس پر تیزی سے کام کرنا ہوگا۔

بیان کے مطابق آرمی چیف نے افغانستان سے تعلقات کے حوالے سے کہا کہ افغانستان برادر، پڑوسی، اسلامی ملک ہے، پاکستان، افغانستان کے ساتھ ہمیشہ بہتر تعلقات کا خواہش مند رہا ہے۔

ترجمان پاک فوج کے مطابق جنرل عاصم منیر نے کہا کہ افغانستان سے صرف فتنہ خوارج کی موجودگی اور سرحد پار سے پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے پر اختلاف ہے، یہ اختلاف اس وقت تک رہے گا جب تک وہ اس مسئلے کو دور نہیں کرتے۔

آرمی چیف کا یہ بیان اس تناظر میں سامنے آیا ہے جب کہ گزشتہ ماہ سیکیورٹی ذرائع نے بتایا تھا کہ 27 اور 28 دسمبر کی رات فتنہ خوارج کی جانب سے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کی گئی تاہم سیکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرکے دراندازی کی کوشش ناکام بنا دی تھی اور 15 دہشت گردوں کے ہلاک ہونے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔

فتنہ خوارج کے تقریباً 25 خارجیوں نے افغان طالبان کی بارڈر پوسٹوں کا استعمال کرتے ہوئے کُرم ایجنسی اور شمالی وزیرستان میں 2 مقامات سے پاکستان میں دراندازی کی کوشش کی تھی۔

سیکیورٹی ذرائع نے بتایا تھا کہ 28 دسمبر کی صبح خارجیوں نے دوبارہ افغان طالبان کی پوسٹوں کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دراندازی کی کوشش کی جو پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے ناکام بنادی۔

کہا گیا تھا کہ دراندازی کی کوشش ناکام ہونے پر 28 دسمبر کی صبح خارجیوں اور افغان طالبان نے مل کر پاکستانی پوسٹوں پر بھاری ہتھیاروں سے بِلااشتعال فائرنگ کی، سیکیورٹی فورسز نے اس بلااشتعال فائرنگ کا بھرپور اور منہ توڑ جواب دیا۔

ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ مؤثر جوابی فائرنگ سے 15 سے زائد خارجیوں اور افغان طالبان کے ہلاک ہونے اور متعدد کے زخمی ہونے کی مصدقہ اطلاعات ہیں۔

سیکیورٹی ذرائع نے بتایا تھا کہ مؤثر جوابی کارروائی اور گولا باری سے افغان طالبان 6 پوسٹیں چھوڑ کر بھاگ گئے جب کہ افغانستان سائیڈ پر بھاری نقصانات کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں، پاکستان سیکیورٹی فورسز کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور صرف 3 اہلکاروں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

ذرائع نے بتایا تھا کہ پاکستان نے بارہا افغان حکومت سے فتنہ الخوارج کو پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین نہ استعمال کرنے کا کہا ہے تاہم فتنہ الخوارج کو کنٹرول کرنے اور ان دہشت گرد عناصر کی سرکوبی کرنے کے بجائے افغان طالبان فتنہ الخوارج کی مسلسل معاونت کر رہے ہیں۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ فتنہ الخوارج افغانستان میں پوری آزادی کے ساتھ موجود ہیں اور پاکستان مخالف دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے افغان سر زمین کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔

ذرائع نے مزید کہا تھا کہ پاکستان سیکیورٹی فورسز کسی بھی طرح کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

واضح رہے کہ ملک میں گزشتہ چند سالوں کے دوران دہشت گردی کی کارروائیوں اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے بالخصوص خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ عام شہریوں اور بیرون ملک سے آنے والے شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔

پاکستان کی سابقہ اور موجودہ حکومت اس بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی وجہ سے افغانستان کی عبوری حکومت اور اس کی ناقص بارڈر مینجمنٹ پالیسیوں کو قرار دیتی رہی ہے۔

اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی افغانستان کی وجہ سے ہے اور اسلام آباد کی کوششوں کے باوجود کابل اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں کر رہا۔

انہوں نے واضح کیا تھا کہ پاک ۔ افغان سرحد ساری دنیا کی روایتی سرحدوں سے مختلف ہے، پاکستان کو موجودہ حالات کے پیش نظر بارڈر پر تمام عالمی قوانین نافذ کرنے ہوں گے۔

خواجہ آصف نے کہا تھا کہ اس سلسلے میں طاقت کا استعمال آخری حربہ ہے اور ہم افغانستان کے ساتھ کوئی مسلح تصادم نہیں چاہتے ہیں۔

1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 15 جنوری 2025
کارٹون : 14 جنوری 2025