عمران خان کی ٹوئٹ، پی ٹی آئی رہنماؤں کے بیانات سے مذاکرات کا معاملہ اٹک گیا، اعجاز الحق
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے مذاکرات کرنے والی حکومتی ٹیم کے رکن اعجاز الحق نے مذاکرات میں تعطل کی وجہ عمران خان کے ٹوئٹ اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے بیانات کو قرار دے دیا۔
ڈان نیوز کے پروگرام ’ان فوکس‘ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے دونوں فریقین کوصبر وتحمل سے کام لینے کامشورہ بھی دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب اچھے ماحول میں ملاقات ہورہی ہے تو ایسے میں ایک دوسرے پر حملے کرنے سے معاملات خراب ہوتے ہیں اور پھر عمران خان صاحب کی ٹوئٹ بھی آگئی جس کا یہ بھی نہیں پتہ کہ وہ کون استعمال کررہا ہے۔
اعجاز الحق نے کہا کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے پریس کانفرنس میں مذاکراتی عمل سے متعلق مثبت گفتگو نہیں کی گئی، انہوں نے دھمکی آمیز لحجہ اختیار کیا جس سے معاملات کو آگے لے جانا مشکل ہوجاتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تیسرے اجلاس سے متعلق ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا، اگر ملاقات ہوئی تو اس میں پی ٹی آئی اپنے تحریری مطالبات تیار ہوجاتے ہیں تو اس کے بعد یہ میٹنگ ہوجائے گی۔
حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن نے دعویٰ کیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے اندر بھی بہت سے ایسے عناصر ہیں جو ان مذاکرات سے خوش نہیں، ان لوگوں نے اعتراض بھی کیا کہ جب ہمارے لوگ جیل میں ہیں تو کیوں حکومت سے مذاکرات کیے جارہے ہیں۔
’عمران خان کی بنی گالہ منتقلی کیلئے زبان بندی کی شرط رکھی ہے‘
دوسری جانب، بانی پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی بنی گالہ منتقلی کے لیے زبان بندی کی شرط رکھی گئی لیکن بانی کے لیے دونوں ہی شرائط ناقابل قبول ہیں، اگر وہ یہ شرائط مان لیں تو آج ہی انہیں بنی گالہ منتقل کردیا جائے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز سابق وزیراعظم عمران خان کے ’ایکس‘ ہینڈل سے ایک پوسٹ کی گئی تھی جس میں ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے حوالے سے غیرسنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مذاکراتی کمیٹی سے میری ملاقات تک نہیں کروائی گئی۔
ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے جیسے مذاکرات کا مقصد صرف اور صرف وقت کا ضیاع ہے تاکہ 26 نومبر کے اسلام آباد قتل عام پر عوامی ری ایکشن کو کم کیا جا سکے ، میرا واضح پیغام ہے کہ اگر مذاکراتی عمل کو لے کر حکومت یونہی غیر سنجیدہ رہی اور جوڈیشل کمیشن نہ بنایا تو مذاکرات کو اگلی میٹنگ کے بعد روک دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ جب تمام ایجنسیوں کو ایک سیاسی جماعت کو کچلنے پر لگا دیا جائے گا پھر دہشتگردوں سے کون لڑے گا، یہی ریمارکس سپریم کورٹ کے ججز جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس مندوخیل نے بھی دیے کہ خفیہ اداروں کو سیاسی انجینئرنگ پر لگا دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جھوٹ بول کر ہماری حکومت پر طالبان کی آبادکاری کا الزام لگایا گیا، ہماری حکومت کے دوران بلکہ حکومت خاتمے کے ایک سال بعد تک بھی دہشتگردی نے سر نہیں اٹھایا تھا یہ سب کچھ انہیں کا قصور ہے جو بلوچستان کے حالات کے ذمہ دار ہیں۔
ٹوئٹ میں مزید کہا گیا کہ ان سب تجربات کی بدولت پاکستان میں معیشت کا حال بدترین ہے جب کہ عدلیہ ، نیب ، ایف آئی اے ، پولیس سمیت ہر ادارہ تحریک انصاف کے پیچھے لگا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ملک کا سیاسی اور معاشی نظام درہم برہم ہے اور عدم استحکام عروج پر ہے۔