• KHI: Maghrib 6:00pm Isha 7:21pm
  • LHR: Maghrib 5:17pm Isha 6:43pm
  • ISB: Maghrib 5:17pm Isha 6:45pm
  • KHI: Maghrib 6:00pm Isha 7:21pm
  • LHR: Maghrib 5:17pm Isha 6:43pm
  • ISB: Maghrib 5:17pm Isha 6:45pm

9 مئی کے مقدمات میں انسداد دہشتگردی عدالت کی دفعات لگیں، پھر فوجی ٹرائل کیسے ہوگیا؟ سپریم کورٹ

شائع January 10, 2025 اپ ڈیٹ January 10, 2025 02:55pm
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے 7 رکنی بینچ کے روبرو دلائل دیے — فائل فوٹو: ڈان نیوز
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے 7 رکنی بینچ کے روبرو دلائل دیے — فائل فوٹو: ڈان نیوز

سپریم کورٹ کی جج جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے ہیں کہ 9 مئی کے مقدمات میں ساری دفعات انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی سی) کی لگی تھیں، نہیں معلوم پھر ان دفعات پر فوجی ٹرائل کیسے ہوا؟

ڈان نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے حوالے سے انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کی، دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے جو افسر ٹرائل چلاتا ہے، کورٹ میں وہ خود فیصلہ نہیں سناتا، ٹرائل چلانے والا افسر دوسرے بڑے افسر کو کیس بھیجتا ہے، وہ فیصلہ سناتا ہے، جس افسر نے ٹرائل سنا ہی نہیں، وہ کیسے فیصلہ دیتا ہوگا؟

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ کیا ٹرائل کرنے والے آرمی افسر کو اتنا تجربہ اور عبور ہوتا ہے کہ سزائے موت تک سنا دی جاتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے طریقہ کار پر مطمئن کریں۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ مجھے 34 سال شعبہ قانون میں ہوگئے، مگر پھر بھی خود کو ماہر نہیں سمجھتا، کیا اس آرمی افسر کو اتنا تجربہ اور عبور ہوتا ہے کہ سزائے موت تک سنا دی جاتی ہے؟

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کے طریقہ کار کو دلائل کے دوسرے حصے میں مکمل بیان کروں گا۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ اور باقی قانون میں فرق ہوتا ہے، آئین کے مطابق یہ تمام بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے، قانون میں معقول وضاحت دی گئی ہے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ بلوچستان میں بہت سے کورٹ مارشل کیسز میں نے بھی سنے ہیں۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ فیلڈ مارشل میں ڈیفنس وکیل ہوتا ہے، وہاں جج نہیں ہوتے، آرٹیکل جو فری ٹرائل کا ہے اس میں جو بنیادی انسانی حقوق ہیں، وہ بتائیں، ملٹری کورٹس میں کیسے ٹرائل کیا جا رہا ہے اس کے مراحل کیا ہیں سب بتائیں؟ سب سمجھ رہے ہیں، سویلین عدالتوں کی طرح ملٹری کورٹس ٹرائل نہیں ہوتا، ملٹری کورٹس کے ٹرائل کی کوئی مثال دیں۔

وکیل خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ آرمی ایکٹ اسپیشل قانون ہے اور اسپیشل قوانین کے شواہد اور ٹرائل کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ کورٹ مارشل میں مرضی کا وکیل کرنے کی سہولت بھی ہوتی ہے، فوجی عدالتوں کا ٹرائل بھی عام عدالت جیسا ہی ہوتا ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ فوجی عدالت میں بطور وکیل صفائی پیش ہوتا رہا ہوں، ملزم کے لیے وکیل کے ساتھ ایک افسر بطور دوست بھی مقرر کیا جاتا ہے۔

جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کیا فوجی عدالت میں بیٹھا افسر اتنا پرفیکٹ ہوتا ہے کہ وہ اتنی سخت سزا کا تعین کر سکے؟

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے خواجہ صاحب! آپ نے کوئی مثال دی تھی کہ امریکا میں بھی فوجی ٹرائل ہوئے، اگر کسی اور ملک میں ایسا ٹرائل ہوتا ہے تو جج کون ہوتا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے پوری دنیا میں کورٹ مارشل میں افسر ہی بیٹھتے ہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کورٹ مارشل میں بیٹھنے والے افسران کو ٹرائل کا تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جج صاحبہ پوچھ رہی ہیں، ان افسران کی قانونی قابلیت بھی ہوتی ہے؟

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا اگر اجازت ہو تو میں خود سوال پوچھ لوں؟ انہوں نے کہا کہ ایک آرمی چیف کے طیارے کو ایئرپورٹ کی لائٹس بجھا کر کہا گیا ملک چھوڑ دو، اس واقعے میں تمام مسافروں کو خطرے میں ڈالا گیا۔

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جو بندہ جہاز میں موجود نہیں تھا وہ ہائی جیک کیسے کر سکتا تھا؟ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے اس جہاز میں تھوڑا سا ایندھن باقی تھا، پھر بھی رسک پر ڈالا گیا۔

خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ میں یہاں سیاسی بات نہیں کروں گا، مگر بعد میں سپریم کورٹ نے جائزہ لیا تھا، سپریم کورٹ نے تسلیم کیا تھا جہاز میں کافی ایندھن باقی تھا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے اس ایک واقعے کے باعث ملک میں مارشل لا لگ گیا، مارشل لا کے بعد بھی وہ ٹرائل فوجی عدالت میں نہیں چلا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ ہائی جیکنگ آرمی ایکٹ میں درج جرم نہیں، اسی لیے وہ ٹرائل فوجی عدالت میں نہیں چل سکتا تھا۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ چلیں اس نکتے پر فرق واضح ہو گیا، آگے چلیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ٹھہریں ایک سوال اور اس میں بنتا ہے، اگر ہائی جیک جنگی یا فوجی طیارے کو کیا جائے پھر ٹرائل کہاں چلے گا؟

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے آپ کے پاس اکثریت ہے، کل ہائی جیکنگ اور 3 سو دو بھی آرمی ایکٹ میں ڈال لیں، کون روک سکتا ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا 9 مئی کی ایف آئی آرز میں ساری دفعات انسداد دہشت گردی ایکٹ کی لگی تھیں، مجھے نہیں پتا پھر ان دفعات پر فوجی ٹرائل کیسے ہوا۔

دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ملٹری کورٹس صرف ان ملزمان کو لے کر گئے، جن کی جائے وقوع پر موجودگی ثابت تھی، ویسے تو ملزمان کی تعداد 5 ہزار سے زیادہ تھی۔

دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل آج بھی مکمل نہ ہوئے، عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک کے لیے ملتوی کردی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث پیر کو بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 9 جنوری 2025
کارٹون : 8 جنوری 2025