• KHI: Asr 4:23pm Maghrib 5:59pm
  • LHR: Asr 3:38pm Maghrib 5:15pm
  • ISB: Asr 3:37pm Maghrib 5:15pm
  • KHI: Asr 4:23pm Maghrib 5:59pm
  • LHR: Asr 3:38pm Maghrib 5:15pm
  • ISB: Asr 3:37pm Maghrib 5:15pm

مصطفیٰ زیدی کی پُراسرار موت کا معما جو نصف صدی گزر جانے کے باوجود حل نہ ہوسکا

شائع January 7, 2025

تقریباً ایک دہائی قبل جب ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال اتنا زیادہ عام نہیں تھا تب ’سیریل‘ نامی پوڈکاسٹ نے لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑا تھا۔

یہ ایک تحقیقاتی پوڈکاسٹ تھی جس کی شروعات 18 سالہ امریکی ہائی اسکول کی طالبہ کے قتل کی روداد سے ہوئی اور جیسے جیسے اقساط آتی گئیں تو سامعین کو اس مقدمے کی تحقیقات اور ٹرائل کی کارروائی سے متعلق بتایا گیا۔ اس لڑکی کے بوائے فرینڈ کو قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی۔ پوڈکاسٹ میں لڑکی کے قتل کے مقدمے پر تفصیل سے بات کی گئی جس میں متعدد سوالات کھڑے ہوئے جبکہ استغاثہ کی خامیوں کی بھی نشاندہی کی گئی جس نے نوجوان لڑکے کو سزا سنائی تھی۔

یہ پوڈکاسٹ فوری طور پر مقبول ہوگئی۔ دو سال کے عرصے میں اس پوڈکاسٹ کو 8 کروڑ بار ڈاؤن لوڈ کیا گیا جبکہ اس نے حقیقی کرائم ڈاکیومینٹری کا ایک ٹرینڈ سیٹ کیا جو اب بھی چل رہا ہے۔ اس کے بعد سے نہ صرف پوڈکاسٹ بلکہ متعدد ’اونلی مرڈرز ان دی بلڈنگ‘ جیسی ٹی وی سیریز بھی نشر ہوئیں جبکہ کچھ کتابیں بھی شائع ہوئیں جن میں اسی طرح قتل کے پُراسرار واقعے کی تحقیقات کی گئیں۔ مثال کے طور پر کتاب ’اے گُڈ گرلز گائیڈ ٹو مرڈر‘ (حال ہی میں اس کتاب پر مبنی نیٹ فلیکس سیریز بھی ریلیز ہوئی ہے) واضح طور پر صرف تحقیقاتی صحافت سے نہیں بلکہ یہ کسی حقیقی واقعے سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کی صحافت میں سیاسی معاملات سے ہٹ کر کسی اور معاملے پر توجہ دینے کا شاذ و نادر ہی وقت مل پاتا ہے جبکہ جرائم کو اس ملک کے بڑے منظرنامے میں اہمیت ہی نہیں دی جاتی۔

اخبارات ہوں یا ٹیلی ویژن، جرائم سے متعلق خبروں کو صفِ اول کی ہیڈلائنز یا اخبارات کے صفحہ اول پر جگہ نہیں دی جاتی جبکہ جرائم کے واقعات کی تفصیل سے رپورٹنگ یا کوریج بھی نہیں ہوتی۔

لیکن حال ہی میں دو خاتون صحافیوں نے 50 سال پرانے معمے کی تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا۔ طوبیٰ مسعود اور صبا امتیاز نے ایک پوڈکاسٹ سے آغاز کیا اور کراچی کے ایک پرانے مقدمے پر بات کی۔ بعد ازاں دونوں نے اسے ایک کتاب کی شکل میں شائع کیا ہے جو میں نے ایک ہی دن میں پڑھ ڈالی۔

’سوسائٹی گرل‘ نامی یہ کتاب، سقوطِ ڈھاکا سے قبل متحدہ پاکستان میں ایک سرکاری ملازم اور شاعر مصطفیٰ زیدی کی پُراسرار موت کے گرد گھومتی ہے۔ 40 سالہ مصطفیٰ زیدی اپنے گھر میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے جبکہ ایک شادی شدہ خاتون اسی گھر میں بےہوشی کی حالت میں پائی گئی تھیں۔ بعدازاں اس خاتون پر قتل کا الزام عائد کیا گیا لیکن وہ بری ہوگئیں۔ لیکن مصطفیٰ زیدی کی لاش ملنے سے لے کر مشتبہ خاتون کی بریت تک، کتاب کے دونوں مصنفین کے مطابق یہ مقدمہ انگریزی و اردو اخبارات کی شہ سرخیوں میں تھا جبکہ مقبول اخبارات سے لے کر شام کے سنسنی سے بھرپور اخبارات تک، سب میں اس کیس کی بازگشت تھی۔

مصنفین نے معمے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے جو 50 سال سے حل نہیں ہوسکا اور بلاشبہ یہ ایک مشکل کام ہے۔ جو شواہد ریکارڈ میں موجود ہیں، ان کی مدد سے انہوں نے واقعے کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے لیکن حقیقی زندگی کی طرح اس کتاب میں بھی مصطفیٰ زیدی کا معما پُراسرار ہے۔ دونوں مصنفین نے اپنے طور پر کڑیاں جوڑنے کی کوشش کی ہے اور اس کہانی کو اپنے نظریے سے بیان کیا ہے۔ تاہم انہوں نے یہ منفرد کام کیا ہے کہ وہ اس کتاب میں کراچی کے سماجی اور ثقافتی ماحول پر تبصرہ کرتی ہیں جہاں مصطفیٰ زیدی اور شہناز گل نامی نوجوان خاتون رہتے تھے جبکہ انہوں نے اس وقت کی وسیع تر سیاسی صورت حال پر بھی تبصرہ کیا ہے۔

مصطفیٰ زیدی کی ابتدائی زندگی اور خودکشی کی متواتر کوششوں کے تناظر میں دونوں مصنفین نے ذہنی صحت اور اس سے لاپروائی سے متعلق بھی گفتگو کی ہے۔ شہناز گل کی اپنے شوہر کے ہمراہ کراچی منتقلی اور ان کی سماجی زندگیوں کی وجہ سے مصنفین کو کراچی کی اشرافیہ پر تبصرہ کرنے کا موقع میسر آیا جن کے پاس کلبز کی ممبرشپ ہوتی تھیں جبکہ ان کی میٹرو پول جیسے ہوٹلز میں نائٹ لائف ہوتی تھی۔

اس مقدمے کے ٹرائل نے خود اس بات پر بحث چھیڑ دی کہ کس طرح میڈیا نے اس مقدمے میں نوجوان خاتون کا استحصال کیا حالانکہ اس بات کے شواہد انتہائی کم تھے جو مصطفیٰ زیدی کی موت کو قتل ثابت کرتے۔

ان دونوں صحافیوں نے بتایا ہے کہ کس طرح اخبارات نے اس پورے واقعے کو ایک ’گناہ گار‘ عورت پر مرکوز رکھا۔ شادی شدہ ہونے کے باوجود مصطفیٰ زیدی اور شہناز گل کے درمیان افیئر تھا۔ ایک ہی گھر میں مصطفیٰ زیدی مردہ جبکہ شہناز گل بے ہوشی کی عجیب صورت حال میں پائی گئیں۔ حالانکہ سب جانتے تھے کہ مصطفیٰ زیدی نے شہناز کے ساتھ تعلقات رکھ کر اپنی بیوی کو دھوکا دیا لیکن اس کے باوجود پریس اور سوسائٹی نے بڑے پیمانے پر خاتون کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا۔

یہ بھی حقیقت تھی کہ مصطفیٰ زیدی نے شہناز گل کی عریاں تصاویر کے ساتھ فلائرز پرنٹ کروائے تھے اور انہوں نے شہناز کو پاکستان کی کرسٹین کیلر قرار دیا تھا (1960ء کی دہائی میں برطانیہ کا بدنامِ زمانہ پروفومو افیئر اسکینڈل جس میں 46 سالہ اسٹیٹ سیکریٹری آف وار اور شادی شدہ جان پروفومو کے 19 سالہ لڑکی کرسٹین کیلر کے ساتھ تعلقات منظرعام پر آئے تھے)۔

یہ مقدمہ اتنی باریک اور سنسنی خیز تفصیلات سے بھرپور ہے کہ مصنفین نے بتایا ہے کہ کس طرح اس وقت مشرقی پاکستان میں رونما ہونے والے واقعات سے زیادہ عوام کی توجہ اس مقدمے کی پیش رفت پر تھی۔ ایک موقع پر تو ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اپنی ایک تقریر میں اس کیس کو سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا اور وعدہ کیا کہ ملزمان کو ملک سے فرار کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

لیکن کتاب کے اختتام تک نہ صرف اس معاشرے کی خواتین کے ساتھ غیرمساوی سلوک پر افسوس ہوتا ہے بلکہ اس کے اثرات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کتاب میں ایک دشوار شخصیت کے مالک مرد کی خاکہ نگاری کی گئی ہے جو ذہین، باصلاحیت، دشوار اور شاید ٹاکسک بھی تھا۔ ان کے دوست اور رشتہ داروں نے ان کے بارے میں بات کی ہے جبکہ ان کی لکھی شاعری بھی مصطفیٰ زیدی کے خیالات کو ظاہر کرتی ہے۔

ان کے مقابل ایک خاتون ہیں جنہوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ان کے خاندان نے مصنفین سے بات کرنے سے انکار کردیا جبکہ مقدمے کے ٹرائل کے دوران شہناز گل نے صرف ایک ’انٹرویو‘ دیا تھا۔ اس کے علاوہ شاید ایک یا دو بیانات ہیں جو انہوں نے تحقیقات کے دوران پولیس کو دیے تھے۔ شہناز کی سہیلیاں اور وہ خواتین جو ان کے ساتھ سوسائٹی ایونٹس میں اٹھتی بیٹھتی تھیں یا وہ خواتین جنہوں نے کورٹ کی کارروائی میں انہیں دیکھا، سب نے ان کی ظاہری خوبصورتی پر بات کرتے ہوئے ان کی دانشمندی پر تنقید کی۔ حتیٰ کہ ان میں سے ایک نے انہیں ’پینڈو‘ بھی قرار دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے کہانی کے اس کردار کی کوئی شخصیت نہیں، کوئی خیالات نہیں، کوئی ضروریات یا خواہشات نہیں۔

50 سالہ قبل سامنے آنے والے ایک اسکینڈل کی زد میں آنے کے بعد خاتون کے پاس خاموش رہنے سے زیادہ بہتر راستہ کوئی نہیں ہوگا۔ لیکن یہ حقیقت کہ جو لوگ انہیں جانتے تھے وہ بھی ان کی شخصیت کے بارے میں تفہیم اور ان کے کردار سے متعلق کوئی حقیقی خاکہ پیش نہیں کرسکے جوکہ کتاب کے اختتام پر میرے لیے مایوس کُن تھا۔

ہماری سوچ سے زیادہ عورت کو کئی طریقوں سے خاموش کرادیا گیا جبکہ مرد کو نہیں حتیٰ کہ اس کے مرنے کے بعد بھی نہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عارفہ نور
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 8 جنوری 2025
کارٹون : 7 جنوری 2025