• KHI: Zuhr 12:38pm Asr 4:23pm
  • LHR: Zuhr 12:09pm Asr 3:38pm
  • ISB: Zuhr 12:14pm Asr 3:37pm
  • KHI: Zuhr 12:38pm Asr 4:23pm
  • LHR: Zuhr 12:09pm Asr 3:38pm
  • ISB: Zuhr 12:14pm Asr 3:37pm

’موسمیاتی تبدیلی سےنمٹنے کے لیے پاکستان کو قابلِ تجدید توانائی پر منتقل ہونا ہوگا‘

شائع January 7, 2025

موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی بحران ہے لیکن اس کے اثرات پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے زیادہ تباہ کُن ثابت ہورہے ہیں۔ پاکستان جو گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتا ہے، ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ملک بھر میں غربت کی سطح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جبکہ یہ سماجی معاشی استحکام کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (PIDE) کی جانب سے دی اسٹیٹ آف پوورٹی ان پاکستان کے عنوان سے ایک رپورٹ میں سامنے آیا کہ 2019ء-2018ء میں 21.5 فیصد آبادی یعنی ہر 5 میں سے ایک فرد غربت کی زندگی گزار رہا تھا۔ اقوام متحدہ کے ہیبی ٹیٹ نے گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس میں پاکستان کو پانچواں سب سے غیرمحفوظ ملک قرار دیا ہے۔

2022ء کے سیلاب سے 15 ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہوا اور 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ اسی طرح 2010ء کے سیلاب نے ملک کے جغرافیائی رقبے کا پانچواں حصہ تباہ کر دیا تھا جس سے 2 کروڑ سے زائد افراد اپنے سر پر چھتوں سے محروم ہوئے۔ پچھلے 13 سال میں ان دو بڑے سیلابوں نے 5 کروڑ 30 لاکھ افراد کو غربت یا غربت کی لکیر سے نیچے دھکیلا ہے۔ اس نے کمیونٹیز کو کمزور کیا ہے جس سے مستقبل میں رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے ان کے متاثر ہونے کے امکانات میں اضافہ ہوا ہے۔

ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن (ڈبلیو ایم او) نے رپورٹ کیا ہے کہ پاکستان میں بارشوں کی شدت میں 50 سے 75 فیصد اضافہ ہوا ہے جو ممکنہ طور پر تباہ کن سیلابوں کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ رجحان اس ضرورت کو اجاگر کرتا ہے کہ پاکستان فوری طور پر انسان کی پیدا کردہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مضبوط حکمت عملی تیار کرے اور اس پر عمل درآمد کرے۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے ہمیں 100 فیصد تک قابلِ تجدید توانائی کی جانب منتقل ہونے کی ضرورت ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق سولر فوٹو وولٹک کے لیے پاکستان کی محض 0.071 فیصد زمین کا استعمال ہی کافی ہوگا جبکہ یہ ملک کی موجودہ بجلی کی طلب کو پورا کرسکتا ہے۔ اس کے باوجود بجلی کی پیداوار کی 60 فیصد تنصیبات کوئلے، تیل اور گیس پر انحصار کرتی ہیں جبکہ 8.41 بجلی فیصد جوہری توانائی سے حاصل ہوتی ہے۔

مالی سال 2024ء (جولائی تا مارچ) کے دوران پاکستان نے خام اور پیٹرولیم کی درآمدات پر 8 ارب ڈالرز سے زائد خرچ کیے۔ قابلِ تجدید ذرائع پر تیزی سے منتقلی سے تھرمل اور جوہری توانائی پر انحصار کم ہوجائے گا کیونکہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے آنے والی آفات کے دوران یہ خطرات کا باعث بنتے ہیں۔

پاکستان میں ونڈ پاور کی صلاحیتیں بھی متاثر کُن ہیں۔ ایشین ونڈ انرجی ایسوسی ایشن کے مطابق صرف ٹھٹہ ونڈ راہداری 50 گیگا واٹ قابلِ تجدید توانائی پیدا کرسکتا ہے جبکہ ورلڈ بینک کے اندازے کے مطابق بلوچستان میں ہوا سے توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت 20 گیگا واٹ ہے۔ شمسی توانائی اور ونڈ پاور دونوں کا استعمال کرکے پاکستان گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کم کر سکتا ہے اور یوں پیرس معاہدے میں طے شدہ اہداف کا حصول بھی آسان ہوجائے گا۔

قدرت اور جنگلی حیات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے شہری علاقوں کو زیادہ پائیدار ماحول دوست مقامات میں تبدیل کرنا ہوگا۔ بڑے اور درمیانے درجے کے شہروں میں بسوں اور میٹرو ٹرین کے ساتھ عوامی نقل و حمل کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ نجی گاڑیوں سے ہونے والے کاربن کے اخراج کو کم کیا جاسکے جبکہ اس سے ٹریفک کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

اس کے علاوہ شہروں میں مزید ہریالی کے لیے کام کرنا ہوگا جبکہ شجرکاری اور چھوٹے باغات بنانے کے جنگلی حیات پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے جبکہ ان اقدامات سے شہروں کو ماحول دوست بنانے میں بھی مدد ملے گی۔ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ذخیرہ کرنے کا سب سے سستا ذریعہ ہیں، لہٰذا مضبوط ماحولیاتی نظام کی تعمیر میں مدد کے لیے بڑے پیمانے پر مقامی اقسام کے درخت لگائے جائیں۔

گاڑیوں کی ضرورت کو کم، سائیکل اور پیدل چلنے پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہوئے شہروں کو نئے سرے سے ڈیزائن کیا جانا چاہیے۔ سیلاب کو روکنے اور غیرپائیدار طریقوں سے پانی کے استعمال کو کم کرنے کے لیے بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کا مؤثر نظام بنانے کی ضرورت ہے۔ ملک بھر میں شمسی توانائی سے چلنے والی اسٹریٹ لائٹس لگائی جاسکتی ہیں۔

اس حوالے سے پاکستان دیگر ممالک کے جدید منصوبوں سے بھی اسباق حاصل کرسکتا ہے جیسے کہ آسٹریا کی شاہراہوں پر شمسی پینل، بھارت میں پانی کو بخارات بننے سے روکنے کے لیے نہروں پر شمسی پینل اور نیدرلینڈز کے شمسی فرش، یہ وہ تمام عملی اقدامات ہیں جنہیں پاکستان بھی اپنا سکتا ہے۔

زراعت پاکستان کی معیشت کا ایک اہم حصہ ہے جسے موسمیاتی تبدیلیوں سے موافق بنانا چاہیے۔ ایسی فصلیں اُگانا جو موسمیاتی تبدیلیوں کو سنبھال سکتی ہیں، پانی کی بچت کا استعمال کرتے ہوئے اور پائیدار کاشتکاری کے طریقوں کو متعارف کروانے سے زراعت کے شعبے اور خوراک کے تحفظ کو یقینی بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ کسانوں کو تعلیم دینے اور انہیں جدید ٹیکنالوجی سے متعارف کرنا، دیہی کمیونٹیز کے لیے مددگار ثابت ہوگا جبکہ اس سے غربت کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

پاکستان کو تعلیم اور تربیت میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوانوں کو موسم سے موافق حل پر عمل در آمد کرنے کے ہنر سکھائے جاسکیں۔ کاربن کے اخراج کو کم کرتے ہوئے گرین انٹرپرینیورشپ کی حمایت سے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں۔ عوام میں شعور اجاگر کرنے کی مہمات اس بات پر زور دیں کہ کس طرح انفرادی اور اجتماعی دونوں اقدامات موسمیاتی تبدیلی سے لڑنے میں معاونت کرسکتے ہیں۔

یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے پاس 100 فیصد قابلِ تجدید توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ شہری اور دیہی علاقوں کو پائیدار ترقی دینے سے گرین معیشت ترقی کرے گی جبکہ غربت میں بھی کمی واقع ہونے کے امکانات بھی پیدا ہوں گے۔

نوجوانوں کو موسمیاتی اختراعی حل سے متعلق تربیت دینے، پائیدار کاشتکاری کو فروغ دینے اور شہری منصوبہ بندی کو بڑھانے سے پاکستان، موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے اور اس کے تباہ کن نتائج کو کم کرنے کے قابل بنے گا۔ اب وقت ہے کہ ان تجاویز پر عمل درآمد کیا جائے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے لیے ڈان میڈیا گروپ کی مہم بریتھ پاکستان کا حصہ بنیں۔
ایوب حمیدی

لکھاری اسٹاک ہوم میں مقیم پالیسی تجزیہ کار اور پروجیکٹ گرین ارتھ کے آپریشنز مینیجر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 8 جنوری 2025
کارٹون : 7 جنوری 2025