کراچی: ریٹائرڈ میجر سمیت 2 ملزمان کو اغوا برائے تاوان کے مقدمے میں عمر قید
کراچی میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے تاجر کے اغوا اور مجموعی طور پر ایک کروڑ 60 لاکھ روپے تاوان وصول کرنے کے جرم میں ریٹائرڈ میجر سمیت 2 ملزمان کو عمر قید کی سزا سنادی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نمبر 16 کے جج نے ضمانت پر موجود ملزمان میجر (ر) نوازش اکبر اور نوید خان کو 2006 میں ضلع ملیر کی عدالت سے واپسی پر شیر بہادر کو اغوا کرکے 70 لاکھ روپے نقدی اور 90 لاکھ روپے مالیت کے زیوارت کی صورت میں تاوان وصول کرنے پر مجرم قرار دیا۔
عدالت نے شہری کو حبس بے جا میں رکھنے پر 3 سال، اس کی گاڑی چوری کرنے پر 7 سال اور انسداد دہشت گردی قانون کی دفعہ 7 کے تحت اضافی عمر قید کی سزا سنائی، عدالت نے مجرمان کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دے دیا۔
سرکاری پراسیکیوٹر محمد رضا کے مطابق اغوا کاروں کے خلاف مقدمہ واقعے کے ڈیڑھ سال بعد سیشن کورٹ کی ہدایت پر درج کیا گیا تھا۔
شکایت کنندہ نے ایف آئی آر میں موقف اپنایا تھا کہ ملزم نوازش اس کے بھائی شیر بہادر کی تعمیراتی کمپنی میں 5 فیصد حصہ دار تھا، کاروباری تنازع کے بعد فریقین میں ایک سمجھوتہ طے پایا تھا اور نوازش نے ایک تحریری معاہدے پر دستخط کیے جس میں واجب الادا رقم کی ادائیگی کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔
تاہم، رقم ادا کرنے کے بجائے نوازش نے مبینہ طور پر اس کے بھائی کو سنگین نتائج کی دھمکی دی۔
6 جون 2006 کو جب شکایت کنندہ اور اس کا بھائی (مغوی) اپنی گاڑی میں ملیر کورٹ سے واپس آرہے تھے تو ملزم نوازش نے اپنے ساتھیوں حاجی زمان، عامر خان، فرید احمد، نوید اور ندیم کے ساتھ مل کر ان کی گاڑی کو روکا اور اس کے بھائی کو اغوا کرکے نامعلوم مقام پر لے گئے اور شکایت کنندہ کو مطلع کیا کہ اس کے بھائی کو تنازع حل کرنے کے بعد رہا کردیا جائے گا۔
عدالت نے واقعات کی ترتیب کو سمجھنے کے لیے تفصیلی حکم نامے میں مغوی کی تفصیلی گواہی کو دوبارہ پیش کیا۔
اپنے بیان میں شکایت کنندہ نے کہا کہ اس نے 2004 میں ایک تعمیراتی کمپنی قائم کی تھی اور اپنے ملازم نوازش کو پانچ فیصد حصص دیا تھا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگلے سال وطن واپسی پر آڈٹ میں نوازش اور ایک اور ملازم نوید کی جانب سے مالی خورد برد کا انکشاف ہوا، دونوں ملزمان نے مبینہ طور پر غبن کا اعتراف کرتے ہوئے تحریری معافی نامہ جمع کرایا۔
تاہم کئی ماہ بعد ان دونوں ملازمین نے ان کے خلاف سازش کی اور 50 لاکھ روپے کے چیک باؤنس کے مقدمے میں انہیں گرفتار کرادیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ عدالتی ریمانڈ کے دوران ملزم نے ان کے دفتر کے احاطے پر غیر قانونی طور پر قبضہ کر لیا، بعد ازاں انہوں نے دھوکا دہی کے الزامات پر نوازش اور نوید دونوں کی خدمات ختم کردیں۔
اپنی 6 ماہ کی قید کے بارے میں بتاتے ہوئے شکایت کنندہ نے الزام عائد کیا کہ ملزم نے انہیں ایک کمرے میں قید کر دیا جہاں مبینہ طور پر کالعدم ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے شریک ملزم حاجی زمان اور عامر نے انہیں خودکش بمبار بنانے کی کوشش کی۔
انہوں نے بتایا کہ اس عرصے کے دوران نوازش اکثر اس جگہ کا دورہ کرتا تھا، بعد ازاں انہیں پتا چلا کہ نوازش نے کمپنی کے 95 فیصد حصص حاجی زمان کو منتقل کیے اور 2 کروڑ روپے کے اثاثے فروخت کردیے۔
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ طبی بنیاد پر رہائی کے بعد انہوں نے 2008 اور 2014 میں سندھ ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کیں، جس میں ملزم کی گرفتاری اور اپنے اثاثوں کی بازیابی کی استدعا کی گئی تھی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ عدالت میں پٹیشن دائر کرنے کے بعد انہیں حراست میں لیا گیا جہاں انہیں ایک کاروباری گروپ کے ساتھ مبینہ معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا۔
عدالت میں معاہدہ پیش کرتے ہوئے متاثرہ شخص نے دعویٰ کیا کہ اسے منصوبے کی ترقی جاری رکھنے کے لیے ماہانہ 10 لاکھ روپے ادا کرنے پر مجبور کیا گیا۔
ان کے بیان کے مطابق انہوں نے بالآخر یہ منصوبہ 50 کروڑ روپے میں فروخت کیا حالانکہ اس کی اصل قیمت 18 ارب روپے تھی۔
عدالت نے کہا کہ دونوں ملزمان نے معاہدوں کی تردید نہیں کی، انہوں نے مزید کہا کہ ابتدائی طور پر ملزمان نے 70 لاکھ روپے کا فراڈ کیا ہے، جو انہیں مغوی کو واپس کرنا ہے، لہٰذا ان کا طرز عمل خود ہی ثابت کرتا ہے کہ وہ کمپنی میں دھوکا دہی اور جعلسازی میں ملوث تھے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ کیس بااثر افراد، خاص کر ریٹائرڈ میجر نوازش اکبر کے ملوث ہونے کے باعث چالان جمع کرانے میں 17 سے 18 سال کی تاخیر ہوئی۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ متاثرہ فریق نے کاروباری معاہدوں اور اثاثوں کی منتقلی کے لیے دھونس، دھمکی اور بلیک میل کرنے کی تفصیلات فراہم کیں، اس کی گواہی کو 700 سے زائد صفحات پر مشتمل دستاویزی شواہد سے تقویت ملی جس میں تفصیل سے بتایا گیا کہ اس نے کتنا مالی استحصال برداشت کیا۔