• KHI: Fajr 5:57am Sunrise 7:18am
  • LHR: Fajr 5:36am Sunrise 7:03am
  • ISB: Fajr 5:44am Sunrise 7:13am
  • KHI: Fajr 5:57am Sunrise 7:18am
  • LHR: Fajr 5:36am Sunrise 7:03am
  • ISB: Fajr 5:44am Sunrise 7:13am

سال 2024: کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی دہشتگرد حملوں میں پیش پیش رہی

شائع January 2, 2025
— فائل فوٹو: ڈان
— فائل فوٹو: ڈان

سال 2024 میں کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں پیش پیش رہی جب کہ بلوچ باغی گروہوں کے حملوں میں 119 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سیکیورٹی رپورٹ 2024 کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حملوں میں رواں سال تقریباً 300 افراد جاں بحق ہوئے جب کہ بی ایل اے کے منظم حملوں میں 225 افراد جاں بحق ہوئے۔

اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) کی جانب سے بدھ کو جاری کی گئی رپورٹ میں ملک میں دہشت گرد حملوں کی تعداد اور شدت میں پریشان کن اضافے کی نشاندہی کی گئی۔

رپورٹ میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا گیا کہ اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو ملک میں سیکیورٹی صورتحال 2014 سے پہلے کی طرح ہوسکتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2024 میں دہشت گرد حملوں کی تعداد 2014 یا اس سے پہلے کی سیکیورٹی صورتحال کے مقابلے میں پہنچ گئی ہے۔

تاہم، اس وقت کی صورتحال کے مقابلے میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ 2014 کی طرح دہشت گرد اب پاکستان کے اندر مخصوص علاقوں پر کنٹرول نہیں رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے کچھ حصوں میں موجودہ عدم تحفظ تشویشناک ہے۔

2024 میں ریکارڈ کیے گئے 95 فیصد سے زیادہ دہشت گرد حملے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ہوئے، خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے سب سے زیادہ 295 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔

دریں اثنا، مختلف کالعدم بلوچ باغی گروہوں، خاص طور پر بی ایل اے اور بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے حملوں میں 119 فیصد اضافہ دیکھا گیا، جس میں بلوچستان میں 171 واقعات ہوئے۔

بگڑتی ہوئی صورتحال

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 15-2014 کے بعد سے دہشت گردی کے واقعات میں بتدریج کمی کے بعد 2021 میں طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد یہ رجحان بدلنا شروع ہوا اور 2024 میں مسلسل چوتھے سال پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔

سال 2024 میں سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 358 اہلکار دہشت گرد حملوں میں شہید ہوئے جب کہ ان حملوں میں 139 عسکریت پسند بھی مارے گئے تھے۔

خیال رہے کہ آخری بار پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی 2020 میں ریکارڈ کی گئی تھی اور اس کمی کا رجحان سابق فاٹا کے قبائلی علاقوں اور کراچی میں فوجی کارروائیوں کے بعد 2014 سے جاری تھا۔

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ اگرچہ کالعدم ٹی ٹی پی، خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث رہی ہے لیکن حافظ گل بہادر گروپ بنوں اور وزیرستان کے کچھ حصوں میں ایک اہم خطرے کے طور پر ابھرا ہے جس کی واضح مثال نومبر میں بنوں میں مالی خیل چیک پوسٹ پر اس گروپ کا حملہ تھا، جس میں 12 فوجی شہید ہو گئے تھے۔

گزشتہ ایک سال کے دوران اس گروپ نے بنوں اور وزیرستان میں ہونے والے خودکش حملوں سمیت متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

اسی طرح ضلع خیبر میں لشکر اسلام اور ٹی ٹی پی کے گٹھ جوڑ نے ضلع میں دہشت گردی کی صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔

مقامی باشندے خیبر میں عسکریت پسندوں کی بڑھتی ہوئی موجودگی اور نقل و حرکت پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں، جس کی سرحد پشاور سے ملتی ہے۔

گزشتہ سال کے 15 کے مقابلے میں سندھ میں 12 دہشت گرد حملے ہوئے، جن میں سے 10 کراچی میں اور ایک، دادو اور لاڑکانہ کے اضلاع میں ہوئے۔ ان حملوں میں مجموعی طور پر 14 افراد جاں بحق اور 28 زخمی ہوئے تھے۔

پنجاب میں 2024 میں 11 دہشت گرد حملے ہوئے جو گزشتہ سال کے 6 حملوں کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے جب کہ ان حملوں میں 6 افراد جاں بحق اور 12 زخمی ہوئے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 4 جنوری 2025
کارٹون : 3 جنوری 2025